مظفرآباد(نمائندہ خصوصی)محکمہ صحت عامہ آزاد کشمیر میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی توہین ،محکمہ رولز کی سنگین خلاف ورزیوں اور جعلسازی کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر غیر قانونی بھرتی کیئے گئے اہلکاروں کو تحفظ دینے کا انکشاف ہوا ہے ۔ ذرائع کے مطابق سابق ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد حیات نے مبینہ طور پر آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ کی جانب سے سروس ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل اور نظرثانی اپیل خارج کرنے سے متعلق فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے بجائے انکی دھجیاں اڑا ڈالیں ۔ سابق ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد حیات کی مبینہ من مانیوں اور جعلسازی کی ایک نئی کہانی سامنے آگئی ۔موصوف نے ہیلتھ سروسز کے مرکزی دفتر مظفرآباد میں ضلع نیلم کے کوٹہ پر سیاسی بنیاد پر غیر قانونی بھرتی کیئے گئے جونئیر کلرک محمد ناصر کو تحفظ فراہم کرنےکیلئے جعلسازی کاانوکھا طریقہ اختیار کیا۔دفتری ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر محمد حیات نے جونیئر کلرک محمد ناصر کی طرف سے آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کو 27 دسمبر 2202 کوخارج کرنے اور پھر 3 فروری 2023 کو نظر ثانی اپیل خارج کرنے کے فیصلوں کی روشنی 21 مارچ 2023 کو ملازمت سے فارغ کرنے کا حکم جاری کرکے بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلوں پرمن وعن عملدرآمد کرنے تاثر دیا پھر 14 اپریل کو ایک نیا حکم جاری کرتے ہوئے 21 مارچ 2023 کو جاری کیا گیا حکم تاریخ اجراء سے منسوخ کرکے جونئیر کلرک محمد ناصر کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی ملازمت پر بحالی کردیا ۔ ڈاکٹر محمد حیات نے جعلسازی اپنی جعلسازی پر پردہ ڈالنے کیلئے جونئیر کلرک محمد ناصر کی ملازمت سے برطرفی اور بحالی کے احکامات کو مخفی رکھا۔ انھوں نے یہ دونوں آدڑ اس عرصہ کے دوران جاری کیئے جب وہ خود 20 فروری سے اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر تھے اور ڈائریکٹر جنرل صحت عامہ نے 13 مئی 2023 کو قومی اخبارات میں حاضری نوٹس کا اشتہارات شائع کرواکر انہیں 14 روز کے اندر ڈپٹی پر حاضر ہونے اور غیر حاضری کی وجہ بیان کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز وقت کی ایما پر جونئیر کلرک نے محمد ناصرنے مبینہ طور پر ایک اور جعلسازی کرتے ہوئے دفتر سی ڈی سی کا تالا توڑ کرترسیل ڈاک رجسٹرڈ پر درج سیریل نمبر 97-493 مورخہ 14 اپریل 2023 کا انداج 14 اپریل کو جاری کیے گئے اس حکم نامے پر کیا جس کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے حوالے سے 21 مارچ 2023 کو جاری کیئے گئے حکم کو تاریخ اجراء سے منسوخ کیا گیا تھا۔ضلع نیلم کے ضلعی کوٹہ پر سی ڈی سی کے مرکزی دفتر میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی غیر قانونی طور پر بھرتی کیئے گئے جونیئر کلرک سی ڈی سی محمد ناصر کو نہ صرف سرکاری خزانہ سے تنخواہ دی جارہی ہے بلکہ محکمہ کے آفیسران سیاسی شخصیات کے تعاون سے اسے تحفظ دینے کیلئے نئے راستے بھی تلاش کررہے ہیں عوامی حلقے حیران ہیں کہ گڈگورننس کے دعویدار وزیراعظم،وزیر صحت عامہ،سیکرٹری صحت عامہ اور ڈائریکٹر جنرل صحت عامہ اس قانون شکنی اور جعلسازی کے مرتکب افسران اور ملازمین کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کرتے ۔عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ محکمہ صحت عامہ کے شعبہ متعدی امراض میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی،بےقاعدگیوں اور جعلسازیوں پر پردہ ڈالنے میں ملوث افسروں اور اہلکاروں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ،احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن بلاتاخیر نوٹس لے ۔