دبئی (طاہر منیر طاہر) فرحت عباس شاہ ( تغمہ امتیاز ) کا شمار دنیا کے ممتاز اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو ،انگریزی اور پنجابی میں لا تعداد کلام تخلیق کیا۔ موضوعات کی وسعت اور کیفیات کے اظہار میں ایسی تخلیقی قوت کسی اور شاعر میں نظر نہیں آتی۔ فرحت عباس شاہ نے نہ صرف معاشی بے انصافی پر قلم اٹھایا بلکہ دنیا کا پہلا اسلامک مائیکروفنانس ماڈل بنا کر اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ فرحت عباس شاہ نے ٹرکل ڈاون اکنامک تھیوری کو رد کرکے ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پیش کی اور ہزاروں خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ فرحت عباس شاہ نے فلسفہ، نفسیات، موسیقی، ادب، صحافت اور مارشل آرٹ جیسے شعبوں میں اپنی حیثیت نہ صرف منوائی بلکہ قبول عام کی سند حاصل کی۔ انھوں نے ہمیشہ، عالمی امن، محبت اور انسانیت کے نظریات کی سربلندی کو فوقیت دی ۔گزشتہ روز ایک عالمی مشاعرہ میں شرکت کے لیے دوبئی تشریف لائے تو پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کے صدر اور ادبی فورم نے ان کے اعزاز میں ایک شام کا اھتمام کیا ،ادبی محفل کی صدارت صدر پاکستان مرکز شارجہ چوھدری خالد حسین نے کی ، چوہدری بشیر احمد شاھد سینئر نائب صدر ادبی فورم بھی سرگرم رھے، حافظ زاھد علی نے کمپیئرنگ کے فرائض انجام دیے-صدر ادبی فورم ڈاکٹر رحمینہ ظفر نے مہمان خصوصی، شعراء اور شرکاء تقریب کو خوش آمدید کہا، آغاز تلاوت قرآن مجید سے ھوا، جس کی سعادت سلمان جاذ ب نے حاصل کی ،ادبی محفل کے دو دور ھوئے پہلے دور میں شرکاء نے فرحت عباس شاہ کی کتاب ” اردو کا ادراکی تنقیدی داستان ” کے حوالہ سے گفتگو کی، جس کا انگریزی ترجمہ ممتاز شاعر ظہیر مشتاق رانا نے کیا ھے ،کتاب کے بارے تنقیدی نظریہ پیش کیا گیا ، فرحت عباس شاہ نے کہا کہ یہ اتنا پراسرار نظام ھے جو ابھی تک لوگوں کو سمجھ نہیں آیا جبکہ اردو ادب میں مغربی تھیوری پڑھائی جا رھی ہے -معاشرہ جس طرف جا رھا ھے وھاں ھمیں معاشی حوالوں سے جکڑ دیا گیا ھے کہ ھم سوچنے کے قابل بھی نہیں رھے، اگر کوئی اپنی تخلیق کے ساتھ مخلص ھے کوئی دنیاوی فائدے اور مفادات دیکھ کر پلان نہیں کر رھا تو درست ھے لیکن ایسا ھو نہیں رھا ،آج کل مفادات کو مدنظر رکھ کر تخلیقی آرٹ کو گھڑا جا رھا ھے ،میں بنیادی طور پر ایک ایسا طالب علم ھوں جو ھمیشہ سوچتا ھوں کہ یہ کیوں ھے اور کیا ھونا چاھیے، میں بنیادی طور پر نفسیات اور فلسفہ کا طالب علم ھوں ۔ھمارے ملک کے تعلیمی نصاب کو بھی غیر ملکی ادارے چلا رھے ھیں، میری خوش قسمتی ہے کہ میری کتاب، اردو کا ادراکی تنقیدی داستان، کا خوب صورت ترجمہ نبراس نے کیا ھے، اچھا کام ھوا ھے جس کا کریڈٹ نبراس کو دیتا ہوں ،جو آج اس ادبی محفل میں موجود ہیں- سلمان جاذ ب، مرزا غلام مصطفی، شہناز خانم، سید نعیم اعجاز ،افضل خان، رحمینہ ظفر، شاداب اصغر، ظہیر مشتاق رانا اور دیگر شعرا نے اپنا تازہ کلام سنایا ،نبراس سہیل نے افسانہ سنایا ،فرحت عباس شاہ نے اپنا تازہ کلام ترنم کے ساتھ اور افسانہ بھی پیش کیا ۔سلمان جاذ ب نے اپنی کتاب ،راشد السلام اور نعیم الدین ایاز نے تحائف مہمان خصوصی کو پیش کئے ،ڈاکٹر رحمینہ ظفر، چوھدری خالد حسین، ڈاکٹر نور الصباح، نبراس سہیل اور حافظ زاھد علی کو بھی تحائف پیش کئے گئے- آخر میں صدر محفل چوہدری خالد حسین نے مرکز پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا کہ مرکز کے دروازےاردو ادب کے فروغ کے لئے ھمیشہ کھلے ھیں، میں اور انتظامیہ ھر طرح سے تعاون کے لئے حاضر ھیں-یہ ایک شاندار اور پروقار تقریب تھی جس کا سہرا صدر مرکز پاکستان شارجہ اور ادبی فورم کے سر جاتا ھ لہذا علم و ادب کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب کا اھتمام جاری رھنا چاھیے-