منصور بن زاید نے ابوظہبی میں غیر ملکیوں کے لیے شادی اور طلاق کے قانون کے قواعد کی منظوری دے دی

ابوظہبی(نمائندہ خصوصی) نائب وزیر اعظم، وزیر برائے صدارتی امور اور ابوظہبی جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ (اے ڈی جے ڈی) کے چیئرمین شیخ منصور بن زاید آلنھیان نے ابوظہبی میں 2020 کے سول میرج اور طلاق کے قانون نمبر 14 پر عملدرآمد کے لیے 2022 کا فیصلہ نمبر 8 جاری کرتے ہوئے غیر ملکیوں کے لیے قواعد کی منظوری دی ہے۔ ابوظہبی جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکرٹری یوسف سعيد العبري نے بتایا کہ ان قواعد میں ابوظہبی میں سول میرج اور طلاق کے قانون کے تحت قانونی طریقہ کار کے بارے میں تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس قانون کے ذریعے بہترین بین الاقوامی طریقوں کے مطابق غیر ملکیوں کے لیے سول فیملی لا کا جدید تصور متعارف کرایا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے کہا کہ یہ قواعد 52 آرٹیکلز پر محیط ہیں جو سول میرج اور اس سے متعلقہ اثرات جن میں طلاق ،بچوں کی مشترکہ کفالت،طلاق سے پیدا ہونے والے مالی حقوق، وصیت، وراثت، ولدیت کا ثبوت، گود لینے اور غیر ملکی شہریوں کی ذاتی حیثیت کے دیگر مسائل شامل ہیں،سے متعلقہ دعووں اور تنازعات کے حل کے لیے ابوظہبی میں قائم کردہ سول فیملی کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہیں۔ قواعد کا دوسرا باب سول میرج کے طریقہ کار اور اس کی تکمیل کی شرائط جن میں سب سے اہم بیوی کے لیے ضروری ٹیوٹر یا سرپرست اور گواہوں کی عدم موجودگی سے متعلق ہے،جس سے سیاحوں اور امارات سے باہر یا ملک سے باہر رہنے والے افراد کے لیے سول میرج معاہدوں کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے یہ ایک ایسی سہولت ہے جو امارت کی طرف سے خصوصی طور پر خطے میں فراہم کی جاتی ہے۔ تیسرے باب میں طلاق کے طریقہ کار کا احاطہ کیا گیا ہے یادونوں میاں بیوی کے یکساں حقوق کے ساتھ طلاق کے طریقہ کار کے آغاز کی بنیاد پر باہمی رضامندی سے طلاق سے متعلق قواد بیان کیے گئے ہیں،اس میں پہلی سماعت پر ہی علیحدگی کی وجوہات بتائے بغیر دونوں میں کسی جگھڑے یا تنازعہ کے،خصوصا ایسی صورت میں جب جوڑے کے بچے بھی ہوں معاملہ خوش اسلوبی سے حل کیا جاتا ہے۔ فیصلے کا آرٹیکل ،13 طلاق کی درخواست دائر کرنے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ درخواست گزار وکیل کی مدد کی ضرورت کے بغیر اس مقصد کے لیے تیار کردہ درخواست کے دو فارم پُر کرے گا۔ا س صورت میں مدعا علیہ میرٹ پر کسی دوسرے دفاع کے بغیر، طلاق کے اعلان کے لیے طے شدہ سماعت کی تاریخ سے دس دنوں کے اندر اندر عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر سکتا ہے، عدالت درخواست کی منظوری کی تاریخ سے 30 دن بعد پہلی سماعت پر طلاق کا فیصلہ سنائے گی۔ آرٹیکل 15، 16 اور 17 طلاق اور عدالت کے صوابدیدی اختیار کے نتیجے میں مالی حقوق کے تعین سے متعلقہ ہیں۔ اس میں ایک شریک حیات کو طلاق کے بعد دوسرے فریق کو معاوضے کے طور پر ایک ہی دفعہ مخصوص رقم ادا کرنے کی ضرورت ہوگی ،جس کا تعین عدالت شادی کی مدت، میاں بیوی کی عمر ،ازدواجی تعلق ٹوٹنے سے کس فریق کو ک حد تک مادی یا اخلاقی نقصان پہنچا جسیے امور کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔ چوتھا باب بچوں کی مشترکہ تحویل سے متعلق ہے جو باپ اور ماں کو برابری کی بنیاد پر منظم طریقے سے دی جائے گی۔ اس میں والدین کے درمیان مشترکہ تحویل کے دورانیہ کے طریقہ کار کی تفصیل دی گئی ہے جو یا تو ہفتہ وار، پندرہویں، یا ماہانہ بنیاد میں ہوسکتی ہے پانچویں باب میں سول فیملی کے امور سے متعلق خصوصی اصولوں پر مبنی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کار سول پروسیجر قانون میں بیان کردہ طریقوں سے مختلف ہے اس میں کیس کو فیملی گائیڈنس طریقہ کار سے گزارے بغیر پہلی سماعت پر فیصلہ کے لیے براہ راست عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے۔ عدالتی کارروائی ، عدالتی فار مز اور زبانی کارروائی کی دو زبانوں میں ہونے کی خاصیت کی حامل ہوتی ہے ۔ عدالت کے پاس عدالتی کارروائی انگریزی میں کرنے کا اختیار ہے اگر کارروائی کے دونوں فریق عربی سے واقف نہیں ، بشرطیکہ دعوی کا فارم اور فیصلہ عربی اور انگریزی میں دائر کیا گیا ہو۔ آخر میں، چھٹا باب، فیصلوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کی کارروائی کے خلاف اپیل سے متعلق ہے نفقہ اور بعد از طلاق معاملات میں مالی حقوق کی کارروائی کی صورت میں زیر التوا مقدمہ میں 5لاکھ درہم سے کم رقم ہو تو عدالت کی طرف سے دیا جانے والا فیصلہ حتمی اور اس کے جاری ہونے کے بعد فوری طور پر قابل عمل ہوتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment