امارات کے مریخ مشن نے سرخ سیارے کا پراسرار ارورا دریافت کرلیا

دبئ (ویب ڈیسک)امارات کے مریخ مشن نے سرخ سیارے کے پراسرار اور شاندار اروراکی نئی تصاویر جاری کی ہیں، مریخ کے انقلابی مشاہدات کے ایک نئے سلسلے کے بعد لی گئی یہ تصاویرمریخ کے ماحول، سیارے کے مقناطیسی میدانوں اور شمسی ہواؤں کے درمیان تعلق کے حوالے سے پیدا ہونے والے نئے سوالوں کےنئے جوابات فراہم کریں گی۔تحقیقی مشن کے ان مشاہدات میں پہلی بار دیکھے جانے والی ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے جسے امارات کے ماریخ مشن ای ایم ایم کی ٹیم نے ‘sinous discrete aurora’ کا نام دیا ہے، ایک بہت بڑا کیڑے جیسا روشنی کا ہالہ ہے جو اس سیارے کے آدھے حصے پر پھیلا ہوا ہے۔امارات مریخ مشن کی سائنسی ٹیم کی سربراہ حصہ المطروشی نے کہا کہ جب ہم نے 2021 میں ہوپ پروب کے مریخ پر پہنچنے کے فوراً بعد پہلی بار مریخ کے پراسرار ارورا کی تصاور لیں، تو ہم جانتے تھے کہ ہم نے اس پیمانے پر مشاہدہ کی ایک نئی صلاحیت حاصل کی ہےاور ہم نے ان ارورا پر اپنی توجہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ہم ماحول کے تقریباً مکمل ڈسک، مظاہراور تعاملات کی تحقیقات کے لیے ماحول کی مختصر تصویریں حاصل کر سکتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ہم بڑے پیمانے پراور ان طریقوں سے اس پراسرار آرورا کے اثرات کا مشاہدہ کرسکتے تھے جن کی ہم نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔بالائی فضا میں توانائی کےالیکٹران اخراج کی وجہ سے ‘sinous discrete aurora’ کیڑے جیسی لمبی لکیروں پرمشتمل ہے، جو کئی ہزار کلومیٹر تک دن کے کنارے سے لے کر مریخ کی رات تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ ارورا ہوپ کے ذریعے کئے گئے مشاہدات میں سب سے روشن اور سب سے زیادہ وسیع ہیں۔ ان میں لمبی شکلیں شامل ہیں۔ سیاروں کےدرمیان مقناطیسی میدان شمسی ہواوں کے ذریعے مریخ کے گرد لپٹا ہوا ہے، جو مریخ کی بالائی سطح پر موجود مقناطیسی قوتوں کے ساتھ مل کر مریخ کی میگنیٹوٹیل بناتا ہے۔ای ایم ایم پروجیکٹ ڈائریکٹر عمران شرف کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اضافی بینڈوڈتھ اور وسائل کی دستیابی کا مطلب تھا کہ ہم موقع سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اورورا کے علاقے پرطے شدہ سے زیادہ توجہ مرکوز کر سکتے ۔اس صلاحیت سے یقینی طور پر نتائج حاصل ہوئےکیونکہ اب ہم نے ان کے بارے میں تحقیقات کی پوری نئی راہیں کھول دی ہیں۔ امارات کے مریخ مشن ہوپ کے الٹرا وائلٹ اسپیکٹومیٹرکی مشاہدات کی حد 90 سے 180نینو میٹرطول موج کے درمیان ہے۔جس نے 130.4نینو میٹرہر الٹرا وائلٹ شعاوں کے اخراج کا مشاہدہ کیا گیاجس میں یہ بات سامنے آئی کہ سیارے کی سطح سے تقریباً 130 کلومیٹر بلندی پر توانائی کے الیکٹران ایٹمز اور مالیکیولز سے ٹکرا رہے ہیں۔یہ الیکٹران شمسی ہواوں سے آتے اور مریخ کے مقناطیسی کرہ میں برقی میدانوں سے متحرک ہوتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے میں ای ایم یو ایس ٹیم کے رکن ڈاکٹر راب للیزنے کہا کہ سائنوس ارورا ایک چونکا دینے والی دریافت ہے جس سے ہم انتہائی حیران تھے ہمارے پاس خیالات ہیں، لیکن اس کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں ہے کہ ہم اس شکل اور سیاروں کے پیمانے پر ایک ارورہ کا مشاہدہ کیوں کر رہے ہیں۔اب ہمارے پاس MAVEN اور Mars Express مشنز کے ذریعے مریخ کے پہلے کے مشاہدات کا دوبارہ جائزہ لیں گے ، تاکہ ایسی حقیقتوں کو تلاش کیا جا سکےجو ہوپ کے نئے مشاہدات کو واضح کر سکیں۔ سرخ سیارے پر تحقیقی مشن ہوپ متحدہ عرب امارات کی گولڈن جوبلی تقریبات کے تاریخی موقع پر2021 میں مریخ کے مدار میں داخل ہوا تھا۔

Comments (0)
Add Comment