اسلا م آ با د(آن لائن)حکومت نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کو بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتوں میں کشمیر کے حوالے سے مواد شیئر کرنے پر 200 اکاؤنٹس معطل کیے گئے ہیں۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کئی پاکستانیوں نے ٹوئٹر کو کشمیر کی حمایت میں لکھنے والے اکاؤنٹ معطل کیے جانے کی اطلاع دی۔رپورٹ کے مطابق یہ دعوے کشمیر کی آزادی کے حق میں ٹوئٹ کرنے والے صحافیوں، سماجی رہنماؤں، سرکاری حکام اور فوج کے حامیوں کی جانب سے سامنے آئے۔قبل ازیں اتوار کے روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ حکام نے ٹوئٹر اور فیس بک کے سامنے کشمیر کی حمایت میں مواد ڈالنے والے پاکستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی بندش کا معاملہ اٹھایا ہے۔انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے پیغام دیا کہ ‘پاکستانی حکام نے ٹوئٹر اور فیس بک کے سامنے کشمیر کے حق میں پوسٹ کرنے والوں کے اکاؤنٹ کی بندش کا معاملہ اٹھایا، اس کی وجہ خطے کے ہیڈ کوارٹر میں موجود بھارتی اسٹاف ہیں’۔
ٹوئٹر کو کی گئی شکایتی درخواست پر تفصیلات دیتے ہوئے وزیر اعظم کے ترجمان برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹوئٹر کے علاقائی دفتر میں سرکاری سطح پر شکایت دائر کردی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس کیس کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں، پی ٹی اے نے ریجنل آفس میں شکایت درج کرواتے ہوئے اکاؤنٹ معطل کرنے کی وضاحت طلب کرلی ہے، ہم طویل المدتی حکمت عملی پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ اس طرح کی صورتحال دوبارہ سامنے نہ آسکے۔انہوں نے کہا کہ ‘ٹوئٹر کو کوئی حق نہیں کہ سیاسی بحث پر قدغن لگائے جو ان کی کمیونٹی گائیڈلائنز میں رہ کر کی گئی تھیں۔ٹوئٹر کو نشاندہی کیے گئے اکاؤنٹس کی تعداد کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پی ٹی اے جلد بیان جاری کرے گا۔وزیر اعظم کے ترجمان نے کشمیر کے مسئلے پر گزشتہ ہفتے معطل کیے گئے اکاؤنٹس کی فہرست فراہم کی جس میں چند سرکاری حکام کے اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ان میں سے ایک اکاؤنٹ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ترجمان برائے ڈیجیٹل میڈیا مشوانی اظہر کا تھا۔ٹوئٹر کے مشوانی اظہر کو ملنے والے نوٹس کے اسکرین شاٹ میں لکھا تھا کہ ٹوئٹر نے ان کا اکاؤنٹ جعلی آئی ڈی کی وجہ سے بند کیا ہے۔ارسلان خالد کا کہنا تھا کہ ‘جب وہ کشمیر کے مسئلے پر ٹوئٹ کر رہے تھے تو ان کا اکاؤنٹ جعلی آئی ڈی کی وجہ سے بند کیا گیا، ایک اور مثال وزارت ہاؤسنگ کے وقاص امجد کی ہے۔ٹوئٹر کا کشمیر کے مسئلے پر جانبدارانہ رویہ مضحکہ خیز ہے’۔نیشنل آئی ٹی بورڈ کے سی ای او شباہت علی شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘تقریباً 45 ٹوئٹر اکاؤنٹس کو گزشتہ چند دنوں میں معطل کیا گیا اور یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے ٹوئٹر کے ٹرسٹ اینڈ سیفٹی ونگ کے وائس پریزیڈنٹ کو حکومت پاکستان کی جانب سے خط لکھ کر کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ہم نے انہیں یہ بھی بتایا ہے کہ معطل اکاؤنٹس پر عوام کی جانب سے سخت رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے جس سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں’۔اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ ‘ٹوئٹر سے سرکاری حکام کے اکاؤنٹ کی تصدیق کی بھی درخواست کی گئی ہے، کم از کم سرکاری اکاؤنٹس کو بغیر حکام کو نوٹس دیے معطل نہیں کیا جانا چاہیے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے ٹوئٹر کو 23 اگست تک جواب دینے کا وقت دیا ہے اور اس کے بعد میں ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈورسی سے رابطہ کروں گا اور آخری قدم ہم یہ اٹھائیں گے کہ اقوام متحدہ کو دفتر خارجہ کی تصدیق کے بعد خط لکھیں گے’۔دوسری جانب ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پالیسی پر انصاف، غیر جانبداری سے تمام صارفین پر ان کے سیاسی عقائد اور ملک سے قطع نظر ہوکر نافذ کرواتا ہے۔سینسر شپ اور جانبدارای کے الزامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ٹوئٹر کے ترجمان نے بتایا کہ ٹوئٹر کی بنیاد آزادی اظہار کے اصولوں پر ہوئی تھی اور ان کے مواد پر نظر ثانی کرنے والی ٹیم سیاسی جانبداری کے برعکس کام کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے تمام جانب کے لوگوں کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں جنہیں ہماری پالیسیز کی حدود میں رہ کر زیر بحث لانا چاہیے، ہماری پالیسیز کے مطابق دہشت گردی، شر انگیزی، گالی وغیرہ پر پابندی ہے اور ٹوئٹر پر کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
انہوں نے ان اکاؤنٹس کی معطلی پر رائے نہیں دی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم انفرادی اکاؤنٹس کی پرائیویسی اور سیکیورٹی وجوہات پر رائے نہیں دیتے’۔حیرت انگیز طور پر ٹوئٹر کی جانب سے بھارتی حکومت کی درخواستوں پر عمل درآمد کا طریقہ کار بہتر ہے بھارت کی جولائی سے دسمبر 2018 کے درمیان 422 درخواستوں میں 18 فیصد پر عمل درآمد کیا گیا، 667 اکاؤنٹس کی معطلی کی درخواست میں سے 95 اکاؤنٹس بند کیے گئے اور 252 ٹوئٹس ہٹائی گئیں۔دوسری جانب ٹوئٹر نے پاکستان کی جانب سے اس ہی عرصے کے دوران کی گئی تمام درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘ٹوئٹر کو اپنے پلیٹ فارم پر موڈریشن کے عمل کے حوالے سے وضاحت دینی ہوگی، کشمیر کے معاملے پر چند ٹوئٹس ان کے قواعد پر کیسے پورے نہیں اترتے اور وہ کسی بھی مواد کو روکنے کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔