کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ملاقات کی، جس میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کا ادارہ نور حق پہنچنے پر استقبال کیا گیا۔ ملاقات میں دونوں جماعتوں کے درمیان کراچی کی صورتحال اور بلدیاتی انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کی جانب سے جماعت اسلامی کو 9 جنوری کو ہونے والی احتجاجی ریلی میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات پر تفصیلی بات چیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت کا شکر گزار ہوں کہ ہمیں ملاقات کا موقع دیا۔ دونوں جماعتیں بنیادی جمہوریت کی مضبوطی پر یقین رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے حکم ہی پر پہلے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے، اب بھی ہوں گے۔ موروثی سیاست بنیادی جمہوریت کو اپنے تسلط کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی حیدرآباد میں پری پول رگنگ ہورہی ہے ۔ ڈی لیمٹیشن میں سب سے بڑا ہاتھ ہوا ۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ووٹ کے علاقوں میں 40 ہزار کی آبادی پر حلقے بنے ۔دھاندلی کی جو کسر رہ گئی وہ انتخابات میں ہوگی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کوئی اور انتخابات ہوں نہ ہوں، بلدیاتی انتخابات ہونے چاہییں اور شفاف ہونا ضروری ہے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں، ایوانوں میں، اس پر بات چیت اور مذاکرات کیے۔ عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے قانونی و آئینی حق استعمال کرکے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ جماعت اسلامی بھی ان حالات میں متاثر ہے۔ سوالات چھوڑ کر جارہے ہیں کہ ڈی لمیٹیشن کے بعد شفاف انتخابات ہوں گے؟ ان کا نتیجہ قابل قبول ہوگا ؟ ہم سب کئی نکات پر اتفاق کرتے ہیں لیکن شاید ہماری ترجیحات الگ ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ نور حق میں سب بیٹھ کر تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ تجربہ ہے کہ 6 سال بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ۔ پیپلز پارٹی 2013 تک حکومت میں رہی۔ 2015 تک ایم کیو ایم ان کی اتحادی رہی اور لڑ جھگڑ کر کورٹ سے رجوع کرکے انتخابات ہوئے۔
حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ المیہ ہے کہ ایک چیز درست کریں تو دوسری خراب ہو جاتی ہے۔ جمہوری جماعتوں کے لیے راستے مسدود ہیں۔ ہمیں سب سے زیادہ خواہش ہے کہ ملک اور جماعتوں میں انتخابات ہوں۔ آمروں کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں لیکن بڑی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ کبھی درست نہیں ہوتی۔ اس کو ٹھیک کرانے کے لیے لڑائی لڑی، عدالت گئے لیکن انتخابات بھی ہوتے رہے۔ مردم شماری میں بھی کراچی سے ہمیشہ زیادتی ہوتی رہی۔ غیر منظور شدہ مردم شماری پر الیکشن کرائے گئے۔ ایم کیو ایم پی ڈی ایم میں شامل ہے، گورنر بھی ان کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اختیار ملنا ضروری ہے اور ڈی لیمٹیشن پر ہمارے تحفظات ہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ ہم نے 29 روز کا دھرنا دیا۔ ڈی لمیٹیشن یا ووٹر لسٹ کی نشاندھی کے باوجود کراچی اپنا میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلر چاہتا ہے۔ یہ عام بلدیاتی انتخابات نہیں ہیں۔ پورے پاکستان کی نظریں ان انتخابات پر ہیں ۔ بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنا کسی صورت درست نہیں۔ انہیں التوا میں نہیں ڈالنا چاہیے۔بو آرہی ہے سازش کی کہ دو چار یا چھ سال مزید آگے بڑھائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کل وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں گے کہ بلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر کروائے جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات جاری ہیں۔ کچھ ادوار میں ایم کیو ایم حکومت میں نہیں رہی۔ 70 کی دہائی سے کراچی کی مردم شماری میں ڈنڈی ماری گئی۔ ایم کیو ایم نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا۔ ہماری کوششوں سے پاکستان میں وقت سے پہلے مردم شماری ہورہی ہے۔
فاروق ستار اور آفاق احمد سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں خالد مقبول کا کہنا تھا کہ سب سے ملاقات کریں گے ، سب کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ پانچ سال سے یہ پیشکش کررہے ہیں۔ فیصلہ دوسروں کو کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پی ڈی ایم کا حصہ نہیں۔