اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے آصف زرداری پر الزام لگانے کے کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے شیخ رشید احمد کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام لگانے کے کیس میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی درخواست ضمانت پر سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ہوئی، جس میں تفتیشی افسر نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔اس موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کےحکم کی مصدقہ کاپی بھی عدالت میں پیش کردی گئی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کے روبرو شیخ رشید احمد کے وکیل سردار عبدالرزاق ، مدعی مقدمہ کے وکیل اور پراسیکیوٹر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے کہا کہ شیخ رشید پر الزام ہے کہ انہوں نے آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا ، جس پر وکیل نے شیخ رشید کے عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید نے عمران خان کے بیان پر دہرایا کہ آصف زرداری نے عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنایا ہے۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ 29 جنوری کو انٹرویو چلا اور 2 دن سے پہلے ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ جس انٹرویو میں شیخ رشید نے بات کی وہ ابھی چلا نہیں تھا اور مقدمہ درج ہو گیا۔ 6 فروری کو ہائیکورٹ نے پولیس کو طلب کر لیا تھا، لیکن پولیس نے مقدمہ درج کر دیا۔آصف زرداری سے تحقیقات کے بجائے شیخ رشید کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے قتل کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، اس پر مقدمہ درج نہیں ہو رہا اور آصف زرداری کی بدنامی پر مقدمہ درج ہو رہا ہے ۔کسی بھی Authorised افسر نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ ایک پرائیویٹ شکایت پر شیخ رشید کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ جو دفعات لگی ہیں ان میں پرائیویٹ شکایت کنندہ کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔
شیخ رشید کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر آصف زرداری خود الزام لگاتے تو الگ بات تھی ، یہ درخواست ایک عام آدمی نے دی جس کو جانتا بھی کوئی نہیں ۔ دوسری طرف عمران خان ایک سابق وزیر اعظم خود الزام لگا رہا ہے ۔ہائیکورٹ نے مزید کسی قسم کا مقدمہ درج کرنے سے روک دیا ہے ۔ جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے مقدمے کا ہائیکورٹ کے آرڈر میں ذکر نہیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر کالعدم قرار دینے کی درخواست پر نوٹس ہو چکا ہے۔ میری استدعا ہے کہ شیخ رشید کو ضمانت پر رہا کیا جائے ۔ یہ ایک سیاسی کیس ہے ۔
بعد ازاں مدعی مقدمہ کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے الزام لگایا ہے، اس کو کیوں اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔ 90 کی دہائی میں شیخ رشید پر کلاشنکوف کا کیس بھی ہوا تھا۔شیخ رشید کو اس اسٹیج پر ضمانت نہ دی جائے ۔ شیخ رشید دوران حراست بھی لوگوں کو اشتعال دلا رہا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ شیخ رشید کے خلاف سازش کا کیس ہے اس میں دوسرا بندہ کون ہے ؟، کیا آپ نے اپنی شکایت میں دوسرے بندے کا ذکر کیا تھا ؟ جس پر شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ دوسرے بندے کا ذکر نہیں۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اس سازش کے باقی لوگوں کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں۔
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ 2 بندے یا 2 سے زائد ہوں تو قانون کے مطابق سازش کے زمرے میں آتا ہے۔یہ کہہ رہے ہیں بھاگ جائیں گے۔ کہاں بھاگ جائیں گے؟ کوئی سینس کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ رشید نے الیکشن بھی لڑنا ہے میں یقین سے کہتا ہوں شیخ رشید جیل میں رہیں گے تو زیادہ طاقت سے آئیں گے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں بھی یہی کہتا ہوں شیخ رشید کو جیل ہی میں رہنے دیں۔ وکیل نے کہا کل جیل کے باہر ہمیں کہا گیا اوپر سے سخت ممانعت ہے، ملاقات جیل میں نہیں کرائی گئی۔ مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہا کہ شیخ رشید پہلے بھی بائیک پر بھاگ گئے تھے۔ خدشہ ہے کہ شیخ رشید ضمانت ملنے کے بعد دوبارہ بھاگ نہ جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے شیخ رشید کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے بعد میں سناتے ہوئے شیخ رشید کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی۔ جودیشل مجسٹریٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ الیکشن نامزدگی فارمز کے لیے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ جیل قانون دیکھ کر عدالت اس کا فیصلہ کرے گی۔