اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی صفوں کو درست اور خوداحتسابی کا عمل شروع کرے۔
اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل وفاقی کابینہ نے نیب قانون میں کچھ ترامیم کی منظوری دی ہے، نیب قانون کی سیکشن 4 اور 5 میں ترمیم کی گئی ہے ، اب عدالتیں ہی نیب کیسز کا جائزہ لیکر انہیں بند کرینگی، مقدمات متعلقہ تفتیشی اداروں میں منتقل کرنے کیلئے ترامیم کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پچاس کروڑ سے کم، اختیارات کے ناجائز استعمال والی انکوائریز اب متعلقہ فورم پر جائیں گی ، چیئرمین نیب تحقیقات ازخود بند نہیں کر سکتے عدالت کے ذریعے ہی تفتیش بند ہوسکتی ہے، احتساب عدالت اب فیصلہ کرے گی کہ مقدمہ بند ہونا ہے یا دوسری عدالت میں جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کی عدم موجودگی میں ڈپٹی چئیرمین کو بطور قائم مقام تمام اختیارات تقویض کیے گئے ہیں ، پہلے ڈپٹی چیئرمین بطور قائم مقام تمام اختیارات استعمال نہیں کر سکتے تھے، پراسیکیوٹر جنرل کے کہنے پر وزیراعظم نے ترامیم کا ٹاسک دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے گریڈ 21 کا سول سرونٹ، ریٹائرڈ میجر جنرل یا جج ہونے کی اہلیت رکھی گئی ہے، ایسی پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی افسر نجی نوکری نہ کر سکے
وزیر قانون نے بتایا کہ جسٹس فائز عیسی کیخلاف قابل اصلاح نظرثانی واپس لینے میں قانونی نکات حائل ہیں, قابل اصلاح نظرثانی آئندہ کچھ دنوں میں واپس لے لی جائیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے حوالے سے قانون پڑھے بغیر کوئی بیان نہیں دینا چاہتا ، جنرل فیض حمید کیخلاف کسی ادارے کو خط لکھنے کے حوالے سے علم نہیں ، دیکھنا ہوگا ادارے کے باہر سے کوئی شکایت کر سکتا ہے یا نہیں، اگر کسی نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور اختیارات سے تجاوز کیا اسے نشان عبرت بننا چاہیے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ پر کمیٹی بنی تھے سال 2000 سے آج تک کا ریکارڈ مکمل موجود ہے ، سال 2000 سے پہلے کا ریکارڈ ایک جگہ موجود نہیں تھا ، کئی اداروں کو توشہ خانہ کے تحائف ملتے ہیں جس کا کوئی نہیں پوچھتا ، کابینہ ڈویژن کے پاس سول اداروں اور حکومتوں کا ریکارڈ موجود ہے ، تمام حکومتوں کا ریکارڈ پبلک کیا جائے گا شاید کچھ وقت لگ جائے کیونکہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہے۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ ترازو کے پلڑے برابر نظر نہ آنے کی وجوہات ہیں، یہ میں نہیں اس وقت کے حاضر سروس ججز نے بھی کہا تھا ، چار پانچ نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ عدالت میں ہوتے ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہوتا ہے ، عدلیہ کو خود اس معاملے کو دیکھنا ہوگا، عدلیہ خود اپنی صفوں کو درست کرے اور خوداحتسابی کا عمل شروع کرے، مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ نام لوں ، آج عدالت میں پندرہ معزز ججز بیٹھے ہیں ادارے سے سوال ہے کہ اپنی صفوں میں دیکھیں کہ دو تین ججز پر ہی تنقید کیوں ہوتی ہے، باقی پر نہیں ہوتی۔