لاہور: حفاظتی ضمانت کی درخواست پر عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ تک سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
زمان پارک کے باہر پولیس آپریشن روکنے سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو عدالت کے روبرو تحریک انصاف اور پنجاب پولیس کے مابین معاہدہ پیش کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی اور پولیس کے مابین قانونی معاملات پر ٹی او آرز عدالت میں پیش کیے گئے، صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان نے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ ہم نے ٹی او آر طے کر لیے ہیں اور معاہدے کے متن کے مطابق پی ٹی آئی نے اتوار کا جلسہ اتوار کے بجائے پیر کو رکھ لیا ہے۔ وکیل اشتیاق اے خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا مینار پاکستان پر جلسہ اب پیر کو ہوگا، پی ٹی آئی ریلیوں اور جلسوں سے پہلے انتظامیہ کو آگاہ کرے گی۔
عدالت نے ٹی او آرز ڈارفٹ پر اعتراض اٹھا دیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ دوبارہ لکھ کر لائیں، ڈرافٹنگ درست نہیں ہے۔
وکیل اشتیاق اے خان نے کہا کہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت پیش ہونا ہے، عدالت آئی جی پنجاب کو حکم جاری کرے کہ عمران خان کی پیشی کے حوالے سے مناسب انتظامات کرے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ ہمارے درمیان سیکیورٹی، جلسے اور قانونی معاملات کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ ٹی او آرز میں الفاظ کا چناؤ بہتر کر کے اسے دوبارہ ڈرافٹ کریں، انوسٹی گیشن والوں کا کام ہے کہ وہ تفتیش کریں اور میں پولیس کے قانونی عمل کو نہیں روک سکتا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی ہے اور ہماری استدعا ہے کہ عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ پہنچنے کے لیے پولیس تعاون کرے تاکہ عمران خان کل اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہو سکیں، عمران خان اس عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت نے جو ریمارکس دیے اس کو آڈر کا حصہ بنا دیں، معاہدے کا آخری پیرا عدالتی حکم کا حصہ بنا دیں میری بس یہی استدعا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ انکی استدعا ابھی یہ ہے کہ انہیں عدالت تک رسائی دی جائے اور عمران خان کی درخواست میں زمان پارک سے لاہور ہائیکورٹ تک گرفتار نہ کرنے کی استدعا ہے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو اس پر اعتراض ہے؟
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمیں لیگل پروسیڈنگز جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس طارق سلیم نے ریمارکس دیے کہ تمام کیسز پر آج ہی فیصلہ کریں گے۔ ایڈوکیٹ جنرل شان گل نے کہا کہ وارنٹ جاری ہوئے ہیں انکی تعمیل ہر صورت ہونی ہے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی درخواست گزار کی درخواست یہ ہے کہ انہیں ہائیکورٹ آنے تک پولیس تعاون کرے اور سیکیورٹی دے کیا آپ اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ معاملہ یہ نہی ہے معاملہ وارنٹ کا ہے جس کی تعمیل ہونی ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میں نے وارنٹ کی تعمیل تو نہیں روکی، جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ لیکن جب پولیس کارروائی رک گئی تو وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوگی۔
لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو ہائیکورٹ تک سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے 4:30 بجے تک عدالت پیش ہونے کی مہلت دے دی جبکہ عمران خان کی زمان پارک سے ہائیکورٹ آنے تک کی درخواست بھی منظور کر لی۔
عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ پہنچنے تک سہولت دیں اور 5 بجے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کریں گے۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے ضمانت کی درخواستوں پر اعتراض کیا تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو عدالت میں تو آنے سے نہیں روکا جا سکتا، اگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے وارنٹ معطل کر دیے ہیں تو آپ میرے حکم ہر عمل درآمد کریں۔ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وارنٹ معطل کر دیے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات آج ہی پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت پر سماعت کے لیے ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر کر دیا، عمران خان کو ہائیکورٹ پیش ہونے کے لیے ساڑھے پانچ بجے تک کی مہلت دے دی گئی۔
سماعت کا آغاز
قبل ازیں، آج صبح جسٹس طارق سلیم شیخ نے زمان پارک آپریشن روکنے کی فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت کی۔ آئی جی پنجاب، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب شان گل، اسد عمر اور عمر ایوب بھی ہائیکورٹ پہنچے۔
سماعت شروع ہوئی تو فواد چوہدری نے روسٹرم پر آکر کہا کہ پچھلے دو دنوں میں آپ نے پاکستان کو اور لاہور کو بحران سے بچایا ہے، لوگوں کی زندگیاں آپکی مداخلت سے بچی ہیں۔ کل آئی جی صاحب سے عدالتی حکم پر ملاقات ہوئی اور تین مسائل پر بات ہوئی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آئی جی پنجاب نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب سے ملاقات کی، ہم نے عمران خان کی سیکیورٹی پر بات چیت کی جس پر پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قانون کے مطابق سیکیورٹی دیں گے۔ دوسرا معاملہ اتوار کے جلسے کا تھا ہم پیر کے روز لاہور میں جلسہ کریں گے اور ہم ریلی نہیں نکالیں گے جبکہ ہم جلسے کے لیے پانچ دن پہلے انتظامیہ کو آگاہ کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت دائر ہوگئی ہے اور ہماری استدعا ہے کہ آئی جی ہمارے کارکنان کو گرفتار نہ کریں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے زیادتی کی وہ ادھر سے یا دوسری طرف سے انکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اب تو کیمرے لگے ہیں چہرہ صاف نظر آ جاتا ہے۔ آپکی ساری باتوں میں ایک لیگل ایشو ہے، دو معاملے ہیں کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ میں ہے اس اسٹیج پر ہم کیسے حفاظتی ضمانت سن سکتے ہیں۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے آپ کے پاس آئیں، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کیس میرے پاس نہ بھی آئے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان آج بھی عدالت جانے کے لیے تیار ہیں اور کل بھی تیار ہوں گے، دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ گرفتاریاں نہ کریں۔ جسٹس طاق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر مداخلت نہیں کر سکتا، کیمرے لگے ہیں لوگوں کی نشاندہی کریں جو قانونی کارروائی بنتی ہیں وہ کریں۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہوگا اور ہم نے کہا ہے کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا۔
عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو سیکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی کو درخواست دیں جو ایک طریقہ کار ہے اور اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ کنٹینرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کے لیے استعمال کرنے چاہیے، آپ جو بھی چاہتے ہیں اسکے طریقہ کار سے کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔
فواد چوہدری نے بتایا کہ تین اہم معاملات پر بات ہوئی، پہلا معاملہ عمران خان کی سیکیورٹی سے متعلق تھا اور ہم نے صرف 133 پولیس اہلکاروں پر تحفظات ظاہر کیے۔ پی ٹی آئی اتوار کے بجائے پیر کو جلسہ کرے گی اور ایڈیشنل سیکریٹری ہوم کی درخواست کو منظور نہ کیا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس نے بھی زیادتی کی ہے کیمرے موجود ہیں ان کو سامنے لایا جانا چاہیے، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پولیس کی جانب سے زیادتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ دونوں اطراف جس کی بھی زیادتی ہے کارروائی ہونی چاہیے، فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ تک محفوظ راستے سے آنے کی اجازت دی جائے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہم کوئی سرچ آپریشن کریں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ انہوں نے ایک مقدمے میں 2500 نامعلوم افراد نامزد کیے ہیں، یہ پہلے کیمروں سے لوگوں کی تصدیق کریں اور نامزد کریں ورنہ ایسے تو یہ پورے لاہور کو اٹھا لیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں دائر کر دی ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر لاہور ہائیکورٹ تک رسائی کی اجازت کی درخواست آئے گی تو جائزہ لیا جائے گا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ سرچ وارنٹ آنے کے بعد ہمیں قانونی کارروائی کی اجازت ہونی چاہیے، اگر سرچ وارنٹ آتا ہے تو ہم ان کی کمیٹی سے بات کریں اور انہیں عمل درآمد کی ہدایت کی جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون میں آپ کے تمام تحفظات کا حل موجود ہے، جو مہذب دنیا میں ہوتا ہے معاملہ عدالت کے سامنے لایا جائے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیسے ہوگی۔ صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان نے بتایا کہ اسکے دو طریقے کار ہیں، میں سی سی پی او کے پاس انڈر ٹیکنگ لے کر گیا۔ وکیل نے کہا کہ قانون میں وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کا طریقہ کار دیا گیا ہے، وارنٹ گرفتاری تعمیل کنندہ لیکر جائے گا اور تعمیل کرائے گا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر رکاوٹیں ہونگی تو پھر وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیسے ہوگی۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر ہمیں سرچ وارنٹ کی تعمیل کروانی ہے تو اس پر بھی عدالت حکم جاری کرے۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پولیس کے پاس قانونی معاملات پورے کرنے کے لیے زمان پارک تک رسائی نہیں ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے اجازت مانگ رہے ہیں انہوں نے ایک ایف آئی ار 2500 لوگوں کے خلاف درج کر دی ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ دو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں ایک عمران خان اور ایک رانا ثناء اللہ کے خلاف، آئی جی پنجاب یہ بتائیں کہ رانا ثنا اللہ کے وارنٹ کی تعمیل کیوں نہ ہوئی، اس معاملے میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے اور میں یقین دہانی کرواتا ہوں عمران خان یہاں پیش ہوں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں کہ ایک سول جج سے سمن آیا ہے تو آپ کیسے اس کی تعمیل کروائیں گے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ تعمیل کا قانون موجود ہے، وارنٹ گرفتاری پر جو ایڈریس لکھا ہوگا تعمیل کنندہ متعلقہ ایڈریس پر جائے گا اور اگر متعلقہ ایڈریس پر ملزم موجود نہیں تو پھر تعمیل کنندہ عدالت کو بتائے گا۔
جسٹس طارق سلیم نے ریمارکس دیے کہ میں یہ کہہ رہا ہوں اگر تعمیل کنندہ کینال پر پہنچ گیا ہے اور رکاوٹیں کھڑی ہیں تو پھر کیا ہوگا، جس پر وکیل نے کہا کہ اگر ملزم جان بوجھ کر وارنٹ موصول نہیں کرتا تو پھر عدالت کے پاس اشتہاری قرار دینے کا اختیار موجود ہے۔ جسٹس طارق نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون تو تب لاگو ہوگا جب تعمیل کنندہ ملزم کے گھر پہنچے گا یہاں تو صورتحال مختلف ہے۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ایک واقعہ ہوا ہے جس میں پیٹرول بم چلیں ہیں، کیا ہمیں جائے وقوعہ پر جاکر شواہد اکٹھے کرنے کی اجازت ہے، کیا ایس ایس پی یا ڈی آئی جی آپریشنز کو جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت ہے، عدالت یہ حکم جاری کر دے تاکہ ہم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر سکیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی تعمیل ہوگی یا نہیں ہوگی یہ تب فیصلہ ہوگا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے اور مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے جائے وقوعہ کا دورہ کرنا ہے ہمیں اجازت دی جائے، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا بات ہوئی، آپ نے دو مقدمے درج کیے ہیں جس میں کل 3 ہزار نامعلوم نامزد ہیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں اس بات کو یقینی کیسے بنائیں گے کہ اس تفتیش میں کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ میرٹ پر تفتیش ہوگی اور کسی بے گناہ کو ملوث نہیں کریں گے۔ جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ آپ ان کو کیسے مطمئن کریں گے، جس پر آئی جی نے کہا کہ میں گارنٹی دیتا ہوں انتقامی کاروائی نہیں ہوگی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ اسپیشل کیس ہے تو آپ میرٹ کیسے یقینی بنائیں گے۔ آئی جی نے بتایا کہ میں گرفتاری سے پہلے کسی سے اجازت نہیں لے سکتا یہ میرا حق ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی انتقام نہیں ہوگا، یہ اپنا کوئی فوکل پرسن بنا دیں اس سے ڈسکس کرلیں گے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے انتقامی کاروائی بالکل نہیں ہوگی اور ہم جس کو گرفتار کریں گے ان کے ساتھ قانون کے تحت برتاؤ ہوگا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ان کو کیسے مطمئن کریں گے اور آپ اس سارے معاملے میں شفافیت کیسے لائیں گے۔
آئی جی نے بتایا کہ میں ان سے اجازت نہیں لوں گا کہ فلاں بندے نے پولیس پر پیٹرول بم مارا ہے ہم اسے گرفتار کرنے لگے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عام تاثر ہے کہ نامعلوم مقدمے میں جس کو مرضی اٹھا لیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے اوپر روز مقدمات درج ہو رہے ہیں، ہم اپنی مہم تو دور بلکہ روز مرہ کی زندگی نہیں گزار پا رہے۔ ہم گرفتاری پر آئی جی کے ساتھ بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے واضح کہا کہ میں گرفتاری کے معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا، یہ نہیں ہوگا کہ ہم ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں کہ کس کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو نہیں۔
آئی جی پنجاب نے استدعا کی کہ عدالت سے درخواست ہے کہ وارنٹ گرفتاری پر تو کوئی فیصلہ کر دے۔ جسٹس طارق سلیم نے ریمارکس دیے کہ تین بجے فیصلہ کریں گے۔
ہائیکورٹ نے عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں دوپہر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت تین بجے تک ملتوی کی تھی۔