کوئی سیاسی جماعت پاکستان مخالف ہے نہ غداروں پر مشتمل، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آج کی کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی بھی پاکستان مخالف نہیں رہی اور نہ ہی وہ غداروں پر مشتمل ہے۔
اپنے بیان میں صدر مملکت کا کہان تھا کہ انا اور زبردستی یا انکساری اور حکمت: کونسی روش کو غالب آنا چاہیے؟، یقین ہے کہ بہتر روش ہی غالب ہوگی اور ہم در گزر کے ساتھ تنازعات حل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ سب پر زور دیتا رہا ہوں کہ موجودہ صورتحال کا حل تلاش کریں، سب سے گزارش کرتا ہوں کہ ٹھنڈے اور گہرے سانس لیں۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ مایوسی اور محرومیوں کی وجہ سے ہماری تاریخ میں سب کی جانب سے زیادتیاں کی گئیں، میں تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتا ہوں کہ وہ ‘دوبارہ سوچیں’۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم ہونے والا امن غیرمعمولی ہے، یہ اقدام ان عظیم رہنماؤں کی سوچ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سعودی اور ایرانی قیادت دہائیوں پرانی دشمنی ختم کرنے پر تاریخ میں یاد رکھی جائے گی لیکن کیا ہماری قیادت بھی ایران اور سعودی قیادت جیسی عظمت کا مظاہرہ کر سکتی ہے؟
صدر مملکت نے کہا کہ مقتدرہ اور سیاسی حلقوں میں بہت سے قابل لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ روزمرہ کے واقعات اور سخت بیان بازی لوگوں کی سوچ کو دھندلا دیتی ہے، وہ قومیں عظمت حاصل کرتی ہیں جو تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں لیکن جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی وہ وقت کی ریت میں ذروں کی طرح فراموش کر دی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سے تجربات کیے گئے اور بہت سی قلابازیاں کھائی گئیں۔ یہ تمام پالیسیاں ایک سنجیدہ، وسیع البنیاد، جامع اور تزویراتی عمل کے بجائے مقتدر لوگوں کی سوچ پر مبنی تھیں۔ پاکستانی تاریخ میں دھونس اور زبردستی کی ایک طویل تاریخ ہے جو بار بار دہرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جماعتوں اور رہنماؤں کو غدار اور ریاست مخالف قرار دینے کی ہماری طویل تاریخ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس سے شروع ہوتی ہے۔ فیض صاحب اور اس وقت کے فوجی اہلکاروں کے غدار ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، فاطمہ جناح صدر ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑیں تو انہیں بطور امیدوار بدنام کیا گیا اور ریاست مخالف قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ایک نوجوان کے طور پر والد کے ہمراہ فاطمہ جناح کے جنازے میں شریک تھا جہاں فاطمہ جناح کے جنازے میں چند افراد کی نعرے بازی کی وجہ سے آنسو گیس فائر کی گئی جس کی وجہ سے ہجوم متشدد ہوگیا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی اور قیادت کو گرفتار کرکے غداری کے مقدمے چلائے گئے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی تعریف وسیع کرنے کے لیے تیسری ترمیم عجلت میں منظور کی گئی، غداری کے الزامات پر ولی خان نے حب الوطنی پر مبنی 40 صفحات کا ایک بہترین جواب پیش کیا۔

Comments (0)
Add Comment