سرینگر(نیوز ڈیسک)مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں اور بندشوں کے ساتھ انسانی المیے کی بدترین صورتحال کوآج 30 روز ہو گئے. مقبوضہ وادی میں پابندیوں اور کرفیو کو ایک ماہ ہوگیا، اس دوران کشمیریوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع رہا، کشمیریوں کو خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے. ٹیلی فون، انٹرینٹ کے ساتھ اخبارات، ٹی وی چینلزکی بندشں بھی جاری ہے، ان تمام پابندیوں کے باوجود بھی مقبوضہ وادی میں جذبہ آزادی سے سرشار کشمیریوں کی مزاحمت جاری ہے.حریت راہنماؤں سمیت وادی سے اب تک 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ساڑھے چار ہزار سے زائد زیر حراست کشمیریوں پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا ہے جبکہ کشمیریوں کے 35 ہزارسے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی چھان بین بھی کی جارہی ہے.
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق گزشتہ ماہ اگست کے دوران قابض بھارتی فوج نے بچے اور خاتون سمیت 16 کشمیریوں کو شہید کیا جبکہ بھارتی فوج کے ہاتھوں366 کشمیری زخمی بھی ہوئے.دوسری جانب جرمن نشریاتی ادارے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں عصمت دری کے خوف میں مبتلا ہیں‘ کشمیر کی خواتین کو بھارتی فوج کے ہاتھوں عصمت دری کا خدشہ ہے، خاص کر دیہی علاقوں میں یہ خطرات زیادہ ہیں. کشمیری ریسرچر عرشی قریشی کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی زبر دستی گھر میں گھس جاتے ہیں، کشمیری خواتین اپنے بچاؤ کے لیے لوہے کی راڈز اور ڈنڈوں کا بندوبست کرکے رکھتی ہیں.واضح رہے کہ اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے عالمی دنیا کو بتا چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بربریت اور ظلم وتشدد کے لیے بھارتی آر ایس ایس غنڈے بھیجے جا رہے ہیں. وزیراعظم نے کہا تھا کہ نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مثال ہے‘اقوام عالم کو متنبہہ کرتا ہوں کہ اگر اس کی اجازت دی گئی تو مسلم دنیا سے شدید ردعمل اور سنگین نتائج برآمد ہوں گے، انتہاءپسندی کو ہوا ملے گی اور تشدد کا نیا دور ابھرے گا.