حکومت تمام اخراجات ادھار لے کر پورا کررہی ہے، احسن اقبال

اسلام آباد: وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال ہم تمام اخراجات ادھار لے کر کر رہے ہیں پاکستان کو اگلے تین سال میں 70 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔بزنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے امن، استحکام اور پالیسیز کا تسلسل ضروری ہے اور کم از کم دس سال کا تسلسل ہونا چاہیے، پاکستان میں سیاسی تسلسل قائم نہ ہوا تو دائروں میں گھومتے رہیں گے، 7 فیصد معاشی گروتھ سے 2047ء تک پاکستان 2 ہزار ارب ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نو فیصد معاشی گروتھ کے ساتھ 2047ء تک تین ہزار ارب ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے، سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ایس آئی ایف سی بہت اچھا حل ہے، پاکستان میں 2017 کے بعد حکومت کی تبدیلی سے سب سے پہلا نشانہ سی پیک بنا،ہم خصوصی اقتصادی اور صنعتی زونز میں 30 سے 40 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی توقع کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اگلے تین سال میں 70 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، ہم اگلے سات سے آٹھ سال میں برآمدات 100 ارب ڈالر تک لے گئے تو ٹیک آف کر جائیں گے تاہم پاکستان برآمدات بڑھانے میں ناکام رہا، حکومت اور نجی شعبہ مل کر کام کر سکتے ہیں، معاشی ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، آئیں پاکستان کو تین ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کیلئے مل کر کام کریں۔احسن اقبال نے کہا کہ ہم غیر ضروری ریگولیشنز کو ختم کرنا چاہتے ہیں، نجی شعبے کیلئے راستہ کلیئر کرنا ہوگا، پاکستان کا سالانہ ریونیو 7 ہزار ارب روپے ہے، اس سال ہمیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے 8 ہزار ارب روپے درکار ہیں، قرضوں کی ادائیگی میں بھی ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم تمام اخراجات ادھار لے کر پورا کر رہے ہیں، پینشن کا بجٹ 800 ارب اور حکومتی امور چلانے کا 700 ارب روپے ہے، سبسڈیز کیلئے 900 ارب، دفاعی اخراجات 1800 ارب روپے ہیں، صوبوں کو ٹرانسفرز کی مد میں 1200 ارب روپے کا خرچہ ہے، پاکستان کو برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے اس کے بعد سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان متوقع ہے سعودی عرب جلد پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔وزیر منصوبہ بندی نے مزید کہا کہ چین کے ساتھ بھی سی پیک کے دوسرے فیز کیلئے بات چیت کر رہے ہیں یو اے ای، کویت اور قطر سے بھی بات چیت ہورہی ہے اب ہم ان سے مدد نہیں مانگ رہے، سرمایہ کاری پر بات کی جارہی ہے۔

Comments (0)
Add Comment