اسلام آباد: ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کی اجازت کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سنادیا جس میں کہا ہے کہ آج احتجاج ممکن نہیں، پی ٹی آئی کی درخواست کو نئی پٹیشن تصور کیا جاتا ہے انتظامیہ 29 جولائی ایف نائن پارک یا کسی مناسب جگہ احتجاج کی درخواست پر مناسب وجوہات کے ساتھ فیصلہ کرے۔پی ٹی آئی کو آج 26 جولائی کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت ملنے کے لیے عامر مغل کی دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی، جس میں عدالت نے حکم دیا کہ 2 گھنٹے میں آپس میں مشاورت کرکے ساڑھے 12 بجے آگاہ کریں۔درخواست گزار کی جانب سے شعیب شاہین جب کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔ اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی درخواست موصول ہوچکی ہے اور اس پر آرڈر آچکا ہے۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ میرے خیال میں آج اسلام آباد میں تو کوئی دوسرا احتجاج بھی ہے، جس پر اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ اسلام آباد میں دوسرے احتجاج کا مجھے کوئی علم نہیں۔اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے اسلام آباد کے اندر احتجاج کرنے کی تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں۔ شہریوں کی حفاظت کے لیے اس وقت کسی کو کوئی اجازت نہیں مل سکتی۔شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے جلسے کی درخواست دی تھی، این او سی دیا گیا اور پھر منسوخ کردیا گیا۔ہماری درخواست پر چیف جسٹس نے ان کو فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔ جلسے سے متعلق ہماری ان سے بات چل رہی ہے، وہ الگ معاملہ ہے۔ ہم اس وقت نیشنل پریس کلب کے باہر پُرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں جو ہمارا آئینی حق ہے۔ احتجاج ، میٹنگز و غیرہ کے لیے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ جس آرڈر کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ دفعہ 144 سے متعلق پاس نہیں ہوا۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ جو وجوہات آپ بتارہے ہیں ایسا تو پھر کوئی احتجاج کر ہی نہیں سکتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں کہیں لکھا ہے کہ لارج نمبر آف پبلک یا زیادہ تعداد خواتین اکٹھی نہیں ہوسکتیں؟ ۔ پریس کلب تو شہر کے دل میں واقع ہے پھر تو پریس کلب کے باہر احتجاج ہو ہی نہیں سکتا۔کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ پریس کلب کے باہر احتجاج کر ہی نہیں سکتے ؟عدالت نے کہا کہ آپ نے ہمیں قانون سے بتانا ہے کہ اتنے نمبر سے زیادہ لوگ پریس کلب کے باہر احتجاج نہیں کرسکتے۔ یا تو آپ کوئی قانون بنادیں کہ پریس کلب کے باہر اتنی تعداد سے زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔شعیب شاہین نے کہا کہ اگر یہ ہمیں پریس کلب کے باہر کی اجازت نہیں دیتے تو ایف نائن پارک کی اجازت دیں۔بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت سے متعلق انتظامیہ کو دو گھنٹے میں مشاورت کرکے ساڑھے بارہ بجے آگاہ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔بعد ازاں درخواست پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی، جس میں عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کچھ طے پایا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے بتایا کہ اسلام آباد میں آج جماعت اسلامی نے دھرنے کا بھی کہہ رکھا ہے۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ یہ وجہ تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے نہیں لکھی ہوئی۔عدالت نے استفسار کیا کہ وہ کہاں دھرنا کر رہے ہیں؟ یہ کہاں احتجاج کر رہے ہیں؟ ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ انہوں نے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا کہا ہے اور یہ پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔اس موقع پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہمیں ایف نائن پارک کے لیے اجازت دیدیں۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیے کہ پھر ان کو پیر کے لیے اجازت دیدیں۔ جماعت اسلامی کو ضلعی انتظامیہ نے کب اجازت دی؟ ۔ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی کو بھی ہم نے اجازت نہیں دی۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی جمعہ کے بعد احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ انہیں ابھی اجازت نہیں دے سکتے، ہم نے پورا اسلام آباد بند کیا ہوا ہے۔جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ کیوں پورا اسلام آباد بلاک کیا ہوا ہے؟، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے دفعہ 144 نافذ کی ہوئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ یا تو کہہ دیں کہ آپ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی کبھی اجازت نہیں دینی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ تاقیامت نہیں ہو گا؟۔ ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ اس کو اتنا لمبا نہ کریں، مختصر بات کریں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اس وقت پورا اسلام آباد بلاک کیا ہوا ہے۔دورانِ سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت راستے بند نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، جس پر جسٹس ثمن رعت امتیاز نے پوچھا کہ اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو حکومت احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرے گی؟ حکومت نے دوسری جماعت کو بھی اجازت نہیں دی، تو ان کو روکنے کے لیے کچھ تو کریں گے۔اگر صرف پی ٹی آئی کو اجازت دی جاتی ہے تو پھر تو افراتفری پھیل جائے گی۔جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کو پیر کو احتجاج کی اجازت دے دیں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پیر کی اجازت نہیں دے سکتے، معلوم نہیں پیر کو کیا حالات ہوں گے۔ اگر جماعت اسلامی کا دھرنا طویل ہو گیا تو پھر اجازت نہیں دے سکتے۔جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ اگر مگر کی بات نہیں ہو گی حکومت کو بھروسا ہونا چاہیے کہ وہ حالات کنٹرول کر لے گی۔ اس طرح کی باتیں نہ کریں کہ جس سے آپ کی نااہلیت سامنے آئے۔ آپ اتنے بےیارو مدگار ثابت نہ کریں، آپ حکومت ہیں۔ پڑوس میں ہمارے کتنے دشمن بیٹھے ہیں، وہ یہ سنیں گے تو کیا تاثر جائے گا۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دشمنوں سے نمٹ لیں گے، اپنوں کے معاملے میں مشکل پیش آتی ہے۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ پھر میں یہ لکھ دوں کہ حکومت بےبس ہے، جو 3 دن میں حالات کنٹرول نہیں کر سکتی؟ ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اگر عدالت نے آرڈر کرنا ہے تو کر دے، ہم اجازت نہیں دے سکتے۔بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ جو کچھ گھنٹوں بعد سنادیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں آج احتجاج کی اجازت نہ مل سکی، آج احتجاج پریکٹیکل طور پر ممکن نہیں اس لیے پی ٹی آئی کی پٹیشن نئی درخواست تصور کی جائے گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ 29 جولائی ایف نائن پارک یا کسی مناسب جگہ احتجاج کی درخواست پر انتظامیہ فیصلہ کرے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں، اسٹیٹ کونسل احتجاج کی اجازت نہ دینے کی وجوہات سے متعلق مطمئن نہیں کرسکی۔تحریری فیصلے کے مطابق درخواست گزار نے کہا کہ 29 جولائی ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت دے دی جائے، درخواست گزار نے انڈر ٹیکنگ دی کہ احتجاج پُرامن ہو گا کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال نہیں بنے گی مگر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ 18 جولائی سے دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ ہے، ایڈوکیٹ جنرل نے کہا 29 جولائی کو احتجاج کی اجازت تب ہی ہوسکتی ہے اگر باقی سیاسی جماعتوں کی لا اینڈ آرڈر صورتحال پیدا نہ ہو۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مناسب پابندیوں کے ساتھ آئین میں پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے، کسی اور سیاسی جماعت کے تھریٹ کی بنا پر پٹشنر پارٹی کے آئینی حقوق سلب نہیں ہوسکتے۔