اسلام آباد: مسنگ پرسنز پر ’’نینشل کانسنس اینڈ لیگل ریزولوشن‘‘ کے تحت حکومت نے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے گرانٹ کے طور پر 50 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت کی جانب سے گرانٹ پانچ سال سے زیادہ عرصے والے ’’گمشدہ افراد‘‘ کے خاندانوں کو دی جائے گی۔ ریاست ’’گمشدہ افراد‘‘ کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق سابق پی ڈی ایم کی حکومت میں اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ انکوائری ایکٹ کے تحت جو کمیشن بنا ہے ان میں 2269افراد کا ڈیٹا ہے، ایک ہزار کیسز جو پانچ سال سے زیادہ زیر التوا ہیں ان کو حل کیا جائے گا۔وفاقی کابینہ نے ایک ہزار لاپتا افراد کو یہ امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، لاپتا افراد میں اگر کوئی سربراہ ہے تو نادرا کے ذریعے ان کا قانونی سرٹیفکیٹ بنایا جائے گا تاکہ ان کے وراثت کے مسائل ہوں۔پنجاب میں 1681لاپتا افراد تھے جن میں سے 1418 کو حل کر لیا گیا، 263 حل طلب ہیں اور 56کیسز عدالتوں میں ہیں۔ سندھ میں 1823لاپتا افراد ہیں جن میں سے 1645 حل ہوگئے جبکہ 178حل طلب ہیں اور عدالت میں 232کیسز زیر التوا ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 3548 لاپتا افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2231حل ہوگئے جبکہ 1317 حل طلب اور 203 عدالت میں ہیں۔ بلوچستان میں 2798لاپتا افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2623 حل کر لیے گئے جبکہ 436حل طلب ہیں اور کورٹ میں تین کیسز زیر التوا ہیں۔اسلام آباد میں 381 کیسز ہیں جن میں سے 322 حل کر لیے گئے جبکہ 59حل طلب ہیں اور عدالت میں 31کیسز زیرا لتوا ہیں۔ آزاد کشمیر میں کل 70کیسز تھے جن میں سے 56 حل کر لیے گئے اور 14 حل طلب ہیں۔ گلگت بلتستان میں 10 کیسز تھے جن میں 8حل کر لیے گئے اور 2کیسز باقی ہیں۔لاپتا افراد کی گرانٹ کے لیے طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے سب کو معاوضہ دیا جائے گا، لاپتا افراد کے خاندان کمیشن میں پیش بھی ہو رہے ہیں اور اپنی تفصیلات شیئر بھی کر رہے ہیں۔ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سال 2011 میں انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنا تھا، جبری گمشدگی کے 78فیصد کیسز حل ہوچکے ہیں جبکہ 22فیصد باقی ہیں۔مسئلے کے حل کے لیے حکومت، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اورسوسائٹی نے کام کیا اور پھر یہ کمیشن بنا۔ اب حکومت نے لاپتا افراد کی فیملیز کے لیے ری ہیبلیٹیشن کا آغاز کیا ہے تاکہ حکومت ان کے دکھوں کا مداواں کر سکے، کابینہ نے پیکج کی منظوری دی تاکہ ان کے دکھوں کا مداواں کر سکے، ریاست کے پاس کوئی مسنگ پرسن نہیں۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کو خاندانوں کو درپیش قانونی مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے، نادرا اور جائیدادوں سے متعلق معاملات کے لیے ایک ایبسنز سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔لاپتا افراد میں ریاست اور حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن حکومت مدر ہڈ پالیسی کے تحت لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے، فنانشل سپورٹ اور ری ہیبلیٹیشن گرانٹ قومی اتفاق رائے سے لائی گئی ہے۔ لاپتا افراد کے خاندانوں کو 50 لاکھ روپے فی خاندان دیا جائے گا۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ لاپتہ افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ دہشتگردوں کے ساتھ مل گئے، کچھ آپریشن میں مارے گئے۔ چھیپا اور ایدھی نے 2010 سے اب تک 44ہزار افراد دفنائے جو ناقابل شناخت ہیں۔ لاپتا افراد میں کوئی جنگ لڑنے تو کوئی پہاڑوں پر گیا اس میں ان کے خاندانوں کا تو کئی قصور نہیں ہے۔بھارت میں 3لاکھ 47ہزار، امریکا میں ایک لاکھ 93ہزار اور برطانیہ میں 2لاکھ 41ہزار افراد لاپتا ہیں۔ لاپتا افراد واپس آنے پر فیملی کو دی گئی گرانٹ واپس نہیں لی جائے گی۔کل 2269 لاپتا افراد کیسز میں سے ایک ہزار 269 کیسز باقی ہیں، لاپتا افراد کے باقی کیسز کا دو سال بعد جائزہ لیا جائے گا اور ہر دو سال بعد وفاقی حکومت لاپتا افراد کے معاملات کا جائزہ لے گی۔ مجموعی طور پر 10ہزار 311لاپتا افراد کے کیسز میں سے 8ہزار 42کیسز حل ہوچکے ہیں، اب تک 2269 کیسز حل نہیں ہوئے ان کے علاوہ 525 کورٹ کیسز بھی ہیں۔ لاپتا افراد کے کئی کیسز کی تحقیقات کے دوران افراد کی اموات اور جیلوں میں موجودگی کی معلومات ملیں۔کمیشن کے چیئرمین، وزارت داخلہ، انسانی حقوق، تین وزارتوں کے جوائنٹ سیکریٹری کی موجودگی میں فیملیز کو رقم دی جائے گی۔ حکومت نے یہ فیصلہ لاپتا افراد کی فیملز کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے کیا۔