سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا وار کیوں چل رہی ہے؟ چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں وائلڈ لائف محکمہ تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا وار کیوں چل رہی ہے؟۔مارگلہ ہلز نیشنل پارک کمرشل سرگرمیاں و ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل ساہی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟۔ سچ بتائیں وائلڈ محکمہ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹی فکیشن جاری ہوا۔سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا میرے علم میں نہیں۔ وائلڈ لائف محکمہ کی تبدیلی کے احکامات وزیراعظم نے جاری کیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ نے الزام وزیر اعظم پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عائد کردیا ہے۔ سیکرٹری کابینہ نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دیدیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کیخلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر پروپیگنڈا کون کر رہا ہے۔ پروپیگنڈا وار سپریم کورٹ کیخلاف کیوں چل رہی ہے۔عدالت نے سلمان اکرم راجا کی عدم حاضری پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سینئر وکیل حکم امتناع لینے کے لیے 2 منٹ میں آجاتے ہیں۔ حکم امتناع کے بعد سینئر وکیل نظر نہیں آتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مارگلہ نیشنل پارک کس کی ملکیت ہے؟۔ یہ اللہ کا تحفہ ہے۔ عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں؟، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات پہلے نہیں دیکھے تھے۔جب معاملہ میرے علم میں آیا تو ایکشن لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے؟۔ کیا جب عوام سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گا۔چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی خیبر پختونخوا میں آتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہینِ عدالت کی فرد جرم عائد کریں؟۔ اسلام آباد میں کئی جگہوں پر ہاؤسنگ سوسائٹی کےاشتہارات لگے ہیں۔نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہماری سوسائٹی کے پی کے میں ہے۔ ہماری سوسائٹی کے درجنوں اشتہارات اسلام آباد میں لگے ہیں۔ سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے اسپانسر مانگا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے کے کس افسر نے رابطہ کیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ یہ مجھے نہیں معلوم۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ مارگلہ ہلز میں آپ سوسائٹی کیسے بنا رہے ہیں؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میرے موکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے، اس پر منصوبہ شروع کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا ملکیتی دستاویزات کدھر ہے؟، جسپر وکیل نے جواب دیا میرے موکل کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2018ء میں بھی مارگلہ ہلز کا کیس چلا۔ لوگوں کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے پھر یہ کیس دبا دیا گیا۔ مارگلہ ہلز کے معاملے پر وزارت داخلہ، وزارت کابینہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سی ڈی اے ملوث ہیں۔وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ میرا موکل ڈیڑھ گھنٹے میں سپریم کورٹ میں پہنچ جائے گا۔ عدالت کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ میرے موکل کا نام صدیق انور ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پورا نام بتائیں، جس پر وکیل نے بتایا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا آپ کے موکل کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں۔ آپ کے موکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا؟۔ آپ کے موکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا۔ کیا آپ کا موکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبہ فوج کا ہے؟۔بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس لوگوں کو خرید لو پروپیگنڈا کرنے کے لیے۔ میں نے زندگی میں جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا۔ ہر ادارے کو تباہ کردو بس ۔ ہمت جرات ہے تو عدالت آؤ ، بتاؤ کیا غلطی ہے۔ ہر ایک کا ایجنڈا ہے۔ ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے۔ خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے۔ سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی۔ 10,10 سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو سپریم کورٹ سے واپس بھیجا۔ ڈیپوٹیشن والوں کو واپس کرنے پر بھی شور مچا۔ چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا ۔ ذاتی حملہ گالی گلوچ کر لو بس۔ میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں۔ آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ سیکرٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزاردت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں۔چیف جسٹس نے کہا یہ تصوراتی بات لگتی ہے، وزارت ہاؤسنگ سی ڈی اے کے ماتحت ہے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے۔ پلاننگ اور ہاؤسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے۔ ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں۔ اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلویز میں ڈال دیں۔ کیوں نہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں سارا گند ہی ختم ہو جائے گا۔ پارلیمان کس لیے ہوتا ہے پارلیمان میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کر سکتے ہیں۔ کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پلاٹس وغیرہ کے بھی معاملات ہوتے ہیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے،کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے؟، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟۔ آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں۔ اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں۔ پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی۔ جرمنی ، فرانس، امریکا، بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویژنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم گورننس میں شفافیت چاہتے ہیں۔ پارلیمان میں یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھاتے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ایگزیکٹو کا کام ہے، پارلیمان صرف قانون سازی کرتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو وجہ بتا دیتا ہوں وزارت داخلہ کو مارگلہ کیوں چاہیے۔ اسلام آباد کی زمین سونا ہے۔ اسلام آباد میں سب سے مہنگی زمین کہاں ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ای سیکٹر سب سے مہنگا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سیکٹر مہنگا کیوں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ای سیکٹر کے سامنے مارگلہ ہے اس لیے مہنگا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اور جب منصوبے مارگلہ کے اندر بنیں گے تو مزید مہنگے ہوں گے۔ اب آپ کو وجہ سمجھ میں آئی؟ یہی ‘ایلیٹ کیپچر’ ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا ای سیکٹر بنایا کس نے تھا؟ جس پر وائلڈ لائف بورڈ کے وکیل نے بتایا کہ ای سیکٹر ضیا دور میں بنا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بس حکم آگیا ہو گا پھر کسی نے دیکھا ہی نہیں یہ قانونی ہے یا نہیں۔ ایک فون بس آجائے تو یہ کر دیا وہ کر دیا ملک ایسے نہیں چلے گا۔ ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا نوٹیفکیشن نکلنے لگے۔ یہاں کہا جاتا ہے مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں۔ کوئی آدھے دماغ والا آدمی بھی ایسی بات نہیں بولے گا۔ جنگل میں پودوں کی افزائش خود ہوا کرتی ہے۔چیف جسٹس نے ضیا دور میں پولن کا باعث بننے والے درختوں کی شجرکاری کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ چار دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے۔ کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں گیا ہو گا۔ مونال کے مالک نے سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ اپنے کسی اور ریستوران میں انہیں ملازمت دے دیں۔ لقمان افضل عدالت نہیں آئے؟ کسی یوٹیوب کو انٹرویو دے رہے ہوں گے۔دوران سماعت ڈی جی گلیات اور پائن سٹی کے مالک کیپٹن (ر) صدیق انور عدالت میں پیش ہو گئے۔ ڈی جی گلیات نے بتایا کہ ہم نے پائن سٹی کوتعمیرات سے روکا یہ اسٹے لے آئے۔چیف جسٹس نے صدیق انور سے استفسار کیا آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں؟، جسپر انہوں نے بتایا کہ مجھے معاف کر دیں میں کچھ نہیں بناؤں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا اب بھی فوج میں ہیں؟ نام کیساتھ ریٹائرڈ لکھا کیوں نہیں؟ جس پر کیپٹن (ر) صدیق انور نے جواب دیا میں 1999 میں ریٹائرڈ ہو گیا تھا۔چیف جسٹس نے پوچھا پائن سٹی کے ساتھ آپ کا ایڈریس جی ایچ کیو کا کیوں ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرا ٹیکس رجسٹریشن نمبر ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ سروس میں ہوتے ہوئے بزنس کر سکتے تھے؟ جب آپ ریٹائرڈ ہوئے آپ کی تنخواہ کیا تھی؟صدیق انور نے جواب دیا اس وقت کم تنخواہیں تھی میری 7 ہزار روپے تھی۔چیف جسٹس نے پوچھا 7 ہزار کی تنخواہ پر آپ نے 35 کروڑ کی زمین کیسے خریدی؟ صدیق انور نے جواب دیا کہ میں نے گاؤں کی زمین بیچی تھی۔ میں نے پھر یہ زمین نواب آف خان پور سے خریدی۔ مارگلہ پہاڑ بھی نواب آف خان پور کے تھے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیایہ اللہ کے نہیں؟ ، صدیق انور نے کہا کہ اللہ نے ہی انہیں دیے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مارگلہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ صدیق انور نے جواب دیا میں تو مارگلہ کو بنا رہا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا قدرت نے بنا دیا ہے آپ اسے چھوڑ دیں، صدیق انور نے جواب دیا چھوڑ دیتا ہوں، میں صرف نیچر ایڈونچر پارک بنانا چاہتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا پائن سٹی نام سے تو لگتا ہے یہ رہائشی منصوبہ ہے، جس پر صدیق انور نے کہا میں نے اس نام سے نقصان اٹھایا ہے سوچتا ہوں نام بدل دوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام نہیں کام ہی بدل دیں، یہاں تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔صدیق انور نے بتایا میں نے وہاں نئے درخت بھی لگائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا وہ آپ کا صدقہ جاریہ رہے گا ثواب آپ کو ملے گا۔ نیشنل پارک میں تعمیرات نہیں ہو سکتیں ہمارا فیصلہ ہے۔صدیق انور نے کہا میں نیشنل پارک میں نہیں ہوں یہ میری ملکیتی زمین ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ ملکیت رکھیں مگر اس پر تعمیرات نہیں کر سکتے۔شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپنی زمین پر قانونی کاروبار ہو سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اپنا پلاٹ بھی ہو، سی ڈی اے باونڈری وال کے اندر ایک حد تک آپ کو تعمیرات نہیں کرنے دیتا۔بعد ازاں عدالت نے حکم نامہ جاری کردیا، جس کے مطابق حکومت نے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت سے وزارت داخلہ کے سپرد کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ عدالت میں فریقین نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ نیشنل پارک ایریا سے ریسٹورنٹس منتقل کر دیں گے۔ مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل نے سپریم کورٹ کیخلاف مہم چلائی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ملازمین بے روزگار ہو گئے۔عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ بادی النظر میں لقمان علی افضل کا عدلیہ مخالف مہم چلانا توہین عدالت ہے۔ عدالت نے لقمان علی افضل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن وزیراعظم نے واپس لے لیا۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم آفس کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے۔وزیراعظم آفس کو دیکھنا چاہیے کہ انہیں دی جانی والی ایڈوائیز پبلک انٹرسٹ کے تحت ہے یا ذاتی مفاد کے تحت۔ یہ معاملہ حکومت پر چھوڑتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے معاملے پر تحریری جواب جمع کرانے کا کہا۔عدالت نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کیخلاف جاری کیے گئے نوٹسز واپس لے لیے اور کیس کی سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کردی۔

Comments (0)
Add Comment