ن لیگی رکن دانیال چوہدری نے ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں اسلام آباد پُرامن اجتماع اور امن عامہ بل 2024ء منظوری کیلئے پیش کیا۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے بل کی شدید مخالفت کی تاہم بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے اراکین نےاحتجاج کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔یہ بل گزشتہ روز سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔ دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے اب یہ دونوں بل منظوری کے لیے صدر مملکت کو ارسال کیے جائیں گے جن کے دستخط کے ساتھ ہی یہ بل ایکٹ بن جائیں گے۔اس بل کے تحت ڈپٹی کمشنر اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے گا اگر ڈپٹی کمشنر اجازت نہیں دیتا تو اپیل چیف کمشنرسے کی جاسکے گی۔ چیف کمشنرکے فیصلے کے خلاف سیکریٹری داخلہ کے پاس نظرثانی درخواست دی جاسکے گی۔ حکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی یا کسی بھی علاقے کو متعین کرے گی جس کا باقاعدہ گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیاجائے گا۔اسلام آباد میں کسی بھی اجتماع یا جلسے کیلئے کم ازکم سات روز پہلے (ڈپٹی کمشنر) ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینی ہوگی، درخواست اس جلسے یا اکٹھ کا کوئی کوآرڈی نیٹر تحریری صورت میں دے گا۔ جلسے کے مقام، شرکاء کی تعداد اور جلسے یا اکٹھ کا وقت اور مقاصد بتانا ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جلسے پر پابندی کا اختیار ہوگا۔اسمبلی کا کوآرڈی نیٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو 7 روز قبل اسمبلی کی تحریری درخواست دے گا، اسمبلی کی جائز وجوہات نہ دینے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہیں دے گا اور جلسے کی اجازت نہ دینے کی تحریری وجوہات دے گا۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت دینے سے قبل امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سکیورٹی کلیئرنس لے گا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مختص کردہ علاقے کے سوا کہیں اور جلسے کی اجازت نہیں دے گا۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یعنی ڈپٹی کمشنراپنے جاری کردہ اجازت نامے کی قومی سکیورٹی رسک، تشد دکے خدشے، امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشے کی بنیادپر ترمیم کرسکتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سکیورٹی زون قرار دے سکتی ہے۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس اسمبلی پر پابندی کا اختیار ہوگا اگر وہ عوام کے تحفظ یا قومی سکیورٹی کیلئے رسک ہو، امن و امان کی خرابی کے رسک کی مصدقہ رپورٹ ہو یا روز مرہ کی سرگرمیاں متاثر کرے، اسمبلی پر پابندی کی وجوہات تحریری طور پر دی جائیں گی جبکہ متاثرہ شخص پندرہ روز کے اندر اپیل کر سکتا ہے۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج افیسر کو اسمبلی کو منتشر کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ اگر وہ جلسہ امن و امان کو خراب کرے، اگر جلسہ منتشر نہیں کیا جاتا تو پولیس افسر اسے طاقت کے ذریعے منتشر کر سکے گا۔بل میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی جلسے کے ارکان کو گرفتار اور حراست میں لیا جا سکتا ہے، غیر قانونی اسمبلی کے رکن کو تین سال تک سزا اور جرمانہ ہوگا، بل کے تحت عدالت سے تین سال سزا پانے والے شخص کو دوبارہ یہ عمل دہرانے پر دس سال تک قید کی سزا ہوگی۔دریں اثنا پی ٹی آئی کے رکن جمشید دستی نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔