10 سے 15 ہزار لوگ جمع کرکے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا ہےکہ سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں، آئین کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے،کسی کو سپریم کورٹ پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں،کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں، ہم نے دیکھنا ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا آئینی خلاف ورزی پرکوئی ہنستے کھیلتےگھنٹی بجاکر نکل جائے یا آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے محافظ ہیں، یہ 24 گھنٹےکام کرنے والی عدالت ہے،کسی کو سپریم کورٹ پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں،سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں۔
چیف جسٹس نےکہا کہ جب دس 15 ہزارلوگ جمع ہوکر عدالتی فیصلوں پرتنقید شروع کردیں تو ہم فیصلےکیوں سنائیں؟ عدالت سیاسی بحث میں کیوں شامل ہو؟ سیاسی رہنماؤں سے توقع کرتےہیں کہ وہ پبلک میں عدالتی فیصلوں کادفاع کرسکیں، آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادکا کہنا تھا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ آرٹیکل 63 اے کےتحت تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائےگی؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔
بی این پی مینگل کے وکیل مصطفٰی رمدے نے دلائل میں کہا کہ صدر نے تو ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنےکا کہاہے، آرٹیکل 63 اے بالکل واضح ہے۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں، مخالف پارٹی کو ووٹ دینےکے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے۔
وکیل مصطفی رمدے نےکہا کہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہوسکتا ہے؟ پارٹی سربراہ کی پابندی کرنا غلامی کرنےکے مترادف ہے۔
جسٹس مینب اختر نےکہا کہ ایسی بات سے آپ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کررہے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے فیصلےسےکسی رکن کو اختلاف ہے تو استعفیٰ دے، ضمنی الیکشن آزاد حیثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے، آرٹیکل 95 اور آرٹیکل 63 اے میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔
وکیل مصطفی رمدے نےکہا کہ عدالت کے خلاف سنجیدہ قسم کی مہم چلائی جارہی ہے، عدالت کومفروضوں کی بنا پر غیر ضروری سیاسی عمل میں دھکیلا گیا۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Comments (0)
Add Comment