ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے تین رکنی انکوائری کمیشن قائم

 اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کے حکم پر ارشد شریف کیس کی تحقیقات کے لیے تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا گی

نجی ٹی وی کے مطابق کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق کمیشن کے ممبران میں ایڈیشنل آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور، ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حامد شامل ہیں جب کہ اس کے سربراہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عبدالشکور ہیں۔

نوٹی فکیشن کے مطابق کمیشن سینئر صحافی ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے گا اور 30 یوم کے اندر اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کرے گا۔

کمیشن میں شامل ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حیات اس وقت دو رکنی اس تحقیقاتی ٹیم میں بھی شامل ہیں جو اس وقت کینیا میں ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کررہی ہے۔

دریں اثنا ارشد شریف قتل کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے اکیڈمی اطہر وحید اور ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حامد پر مشتمل دو رکنی ٹیم کی کینیا میں تحقیقات جاری ہیں۔

ذرائع کے ٹیم نے کینیا میں جائے وقوع، فارم ہاؤس اور واقعہ سے قبل ارشد شریف کے آخری ڈنر کے مقام کا جائزہ لیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے کینیا حکام کے ساتھ فائرنگ سے متاثرہ گاڑی کا بھی جائزہ لیا اور اس پر لگنے والی گولیوں کے نشانات وغیرہ کا باریک بینی سے جائزہ لے کر نوٹس لیے جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے خرم احمد اور وقار احمد سے تفصیلی پوچھ گچھ کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے سوالات کیے۔

ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے خرم احمد سے فائرنگ اور فائرنگ کے بعد صورتحال سے متعلق سوالات کیے۔ جواب میں خرم احمد کا کہنا تھا کہ گاڑی پر اچانک گولیاں چلنے پر وہ گھبرا گیا اور فوری طور پر بھائی وقار احمد کو فون کیا جس کے دوران بھی ایسا لگا کے فائرنگ کے بعد بھی تعاقب کیا جارہا ہے جس پر میں نے گاڑی اور بھگانا شروع کردی، بھائی نے فوری طور پر فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا جو جائے وقوع سے تقریباً 22 کلو میٹر دور تھا۔

ذرائع کے مطابق وقار احمد نے موقف اختیار کیا کہ بھائی کی کال ملنے پر خود بھی فارم کی طرف نکل گیا اور راستے میں کینین پولیس اور پاکستانی دوست کو فون کرکے تفصیل بتائی، جب وہاں پہنچا تو ارشد شریف کی لاش گاڑی میں موجود تھی۔

وقار احمد نے بتایا کہ ہمیں اس وقت تک شک یا علم نہیں تھا کہ گاڑی پر فائرنگ پولیس نے تاہم میرے پہنچنے کے بعد کینین پولیس حکام بھی وہاں پہنچ گئے اور شواہد جمع کیے۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی تحقیق کاروں نے مصنوعی طور پر جائے وقوع تشکیل دے کر تحقیقات کی روشنی میں پورے واقع کی فرضی مشق کرکے بھی نوٹس لیے۔

ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران انکشاف سامنے آیا کہ جس لاج میں ارشد شریف اور دوست نے ڈنر کیا وہاں سی سی ٹی وہ کیمرے نہیں تھے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ لاج کے علاقے میں بجلی کا انتظام بھی جنریٹر یا متبادل نظام سے کیا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان تحقیقاتی ٹیم کو کینین پولیس حکام کی جانب سے بھی معلومات فراہم کی گئیں۔

Comments (0)
Add Comment