پنسلوانیا: کیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کو بھوک لگ سکتی ہے؟ اور اس کیلئے وہ اپنا من پسندیدہ ذائقے کا کھانا تیار کرے گا؟ اس حوالے سے امریکی محققین نے تحقیقات جاری رکھی ہوئی ہیں۔
امریکی ریاست پینسلوانیا کے محققین کی ایک ٹیم ایک الیکٹرانک زبان تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے جو اس بات کی نقالی کرے گی کہ ذائقہ کس طرح محسوس ہوتا ہے اور خواہشات اور ضروریات کی بنیاد پر کیسے اثرانداز ہوگا۔
محققین کا مذکورہ بالا پروجیکٹ AI کے لیے ایک ممکنہ بلیو پرنٹ فراہم کرتا ہے جو معلومات کو انسان کی طرح پروسیس کرتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ انسانی رویہ کافی پیچیدہ ہے، ہماری جسمانی ضروریات اور نفسیاتی خواہشات کے درمیان ایک سمجھوتہ اور تعامل ہے۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت نے حالیہ برسوں میں بہت ترقی کی ہے لیکن اے آئی سسٹمز ہماری انسانی ذہانت کے نفسیاتی پہلو کو شامل نہیں کرتے ہیں، مثال کے طور پر جذباتی ذہانت کو شاذ و نادر ہی AI کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیم میں انجینئرنگ سائنس اور مکینکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور نیچر کمیونیکیشنز میں حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیق کے متعلقہ مصنف سپترشی داس نے کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کا بنیادی مرکز یہ تھا کہ ہم ذہانت کے جذباتی حصے کو AI میں کیسے لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی جذبات ایک وسیع میدان ہے اور بہت سے محققین نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ انسانی رویے کا مشاہدہ کرنا آسان ہے لیکن پیمائش کرنا مشکل ہے اور یہ روبوٹ میں نقل کرنا اور مشکل بنا دیتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو جذباتی طور پر ذہین بنانے کا فی الحال ابھی کوئی جامع طریقہ کاری نہیں ہے۔