نیویارک (نیوز ڈیسک) سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک ، صارفین کا ڈیٹا لیک ہونے کے حوالے سے گذشتہ کچھ عرصہ میں خبروں کی زینت بنی رہی ہے ۔ اس سلسلے میں سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ کے بانی مارک زکربرگ نے سینیٹ کی کامرس اور انصاف کی کمیٹی کے سربراہان اور دیگر سینیٹرز سے ملاقاتیں کیں اور غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت طلب کی۔امریکی سینیٹر نے مارک زکر برگ سے
سوال کیا کہ کیا آپ ہمیں اس ہوٹل کا نام بتانا پسند کریں گے جس میں آپ قیام پذیر ہیں؟ جس پر مارک زکربرگ اُلجھن اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور کچھ سوچتے ہوئے یہ معلومات شئیر کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد سینیٹر نے سوال کیا کہ اگر آپ نے اس ہفتے میں کسی کو پیغام بھیجا ہے تو کیا آپ ان لوگوں کا نام ہمیں بتانا پسند کریں گے؟ جس پر بانی فیس بُک نے کہا کہ میں یہاں سب کے سامنے ان لوگوں کے نام نہیں بتانا چاہتا۔اور اسی پر امریکی سینیٹر نے مارک زکربرگ سے کہاکہ فیس بُک بھی اسی پرائیویسی کا نام ہے جو آپ اپنی زندگی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس اپنی پرائیویسی رکھنے کا حق ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ”دنیا بھر سے لوگوں کو جوڑنا” کے اس مقالے کے پیچھے فیس بُک جانب سے اکٹھی کی گئی معلومات کہاں بھیجی جاتی ہیں؟ بے شک فیس بُک کسی صارف سے پیشگی اجازت لے بھی لے لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہر صارف فیس بُک سے اسی پرائیویسی کی اُمید کرتا ہے؟ مارک زکر برگ نے جواب دیا کہ لوگ فیس بُک پر آ کر اپنی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتے ہیں ، لیکن ان کے پاس اس چیز کا پورا اور مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ یہ معلومات کن کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں اور کن کے ساتھ نہیں۔جس کے بعد امریکی سینیٹر نے مارک زکر برگ کو کرار جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ صارفین کو یہ اختیار دیا گیا ہے لیکن بسا اوقات صارفین کی یہی تصاویر اور ویڈیو ان کے فرینڈ سرکل سے باہر نکل جاتی ہےاور اکثر اوقات اس قسم کی معلومات کو پیسے کمانے کے لیئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔