18 برس سے زیرِتحقیق سمندری جہاز کے ملبے کی حقیقت سامنے آگئی

نیویارک: 18 برس سے ماہرین کے زیرِ مطالعہ جہاز کے ملبے کے متعلق حقیقت بالآخر سامنے آگئی، ماہرین کے مطابق یہ امریکا کا وہیل کا شکار کرنے والا جہاز تھا (انہیں وہیلر کہا جاتا تھا) جو 1859ء میں کھو گیا تھا۔

ملبے کی سڑتی ہوئی لکڑیوں میں موجود درخت کے چھلوں کے نئے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ ڈولفن نامی جہاز کا ڈھانچہ ہے جو ارجنٹینا کے ساحل پر ڈوب گیا تھا۔

سائنس دانوں نے چھلوں کا ڈیٹا بیس استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ یہ درخت نیو انگلینڈ اور جنوب مشرقی امریکا میں 111 فٹ لمبے اس جہاز کی 1850ء میں تعمیر سے کچھ عرصہ قبل گرائے گئے تھے۔

لوہے کی دیگچیاں اور دیگر اشیاء جو وہیل کی چربی کو ابالنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں انہیں باقیات کے نزدیک دریافت ہوئیں۔ یہ بھی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یہ جہاز وہیل کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

تحقیق کے سربراہ مصنف پروفیسر اِگناشیو مُنڈو کا کہنا تھا کہ وہ 100 فی صد یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن درخت کے چھلے یہ اشارہ کرتے ہیں کہ بہت ممکن ہے یہ ایک جہاز تھا۔

امریکا کے ایک ٹری رِنگ سائنس دان اور تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر مُکنڈ راؤ کا کہنا تھا کہ یہ بات دلچسپ ہے کہ لوگوں نے طویل عرصے قبل نیو انگلینڈ میں یہ جہاز بنایا اور یہ دنیا کے دوسری طرف سے دریافت ہوا۔

1770ء کے وسط سے 1850ء کی دہائی تک سیکڑوں امریکی جہاز وہیل کے شکار کے لیے استعمال کیے جاتے تھے تاکہ اس کی چربی سے تیل نکالا جاسکے۔

Comments (0)
Add Comment