، نیا معاہدہ عمرانی ،، ،،گلوبل ویلج "

تحریر :راجہ مدثر ارشاد
پاکستان کی موجودہ معاشی ،معاشرتی ،سماجی ، سیاسی اور پارلیمانی حالت انتہاہی ناگفتہ ہے ہوچکی ہے معاشرہ کا ہر فرد اور ہر طبقہ ایک ہیجہانی کفیت کا شکار ہے پاکستان ایک پر آشوب دور سے گزر رہا ہے بظاہر تو نام کی ریاست ہے ریاست کی عمل داری بھی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں موجود مختلف جھتے منہ زور اور طاقت ور ہیں اور اس صورتحال میں ریاست کی رٹ اور ریاست کاکردار ضعف سے دوچار ھو چکاہے ملک کا ایک عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے وہ اپنے حقوق اور ریاست کے کردار کو دیکھ کر منہ چڑھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں عام فرد اور ریاست کا رشتہ دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
مسائل کے شکار عام انسان کے لیے ریاست ماں بننے سے قاصر نظر آ رہی ہے ریاست طاقتور طبقات کے لیے ایک انٹرٹینمنٹ کلب کا روپ دھار چکی ہے اور ریاست کی جملہ آبادی طبقات میں منقسم ھے۔ ایک مراعات یافتہ اقلیت اشرافیہ کے نام پر بدمعاشیہ ھے جبکہ کثیر طبقہ بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ھے۔
طبقات می غیر معمولی تفاوت بے یقینی بلکہ انارکی کی کفیت کو بڑ ھوتری کا باعث بن رہی ہے موجودہ حالات میں ریاست اور فرد کے باہمی رشتے میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں اس ساری کفیت کا واحد حل ریاست اور فرد کے مابین ایک نئے عمرانی معاہدے کی بدولت ہی ممکن ہے ایک ایسامعاہدہ جسکی بنیاد پر ریاست اور افراد کے دائرہ کار کاتعین ممکن ہو سکے افراد اور ریاست کے درمیان ایسا معاہدہ جس میں افراد اپنے کچھ اختیارات سے محروم ہو کر اجتماعی حکومت کو قبول کرتے ہیں اور حکومت اس کے بدلے عوام کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔
۔ ژاں ژاک روسو نے معاہدہ عمرانی نامی کتاب میں اس حوالے سے اصول وضع کیے ہیں
"عمرانی معاہدہ کا لفظ بطور استعارہ ان تمام سماجی قوانین، ضابطوں پابندیوں و اخلاقیات کے لیے مجموعی حوالوں سے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی بھی انسانی معاشرے کو قابو میں رکھتے اُسے منظم کرنے کے غرض سے استعمال ہوتے ہوں۔ ان اخلاقیات و قوانین میں کسی بچے کی پیدائش کو معاشرے کی نسبت جائز قرار دیتے اُسکی قانونی حیثیت تسلیم کرتے اُسے سماج کا ایک ممبر یا فرد تصور کیے جانے کے ساتھ ساتھ اس کی تمام تر زندگی میں اُس پر اثر انداز ہونے والے تمام قوانین اور بالآخر اُسکی موت کی تصدیق کیے جانے کی سرکاری تصدیق نامے تک کی قانونی لوازمات شامل ہیں ۔ عمرانی معاہد ہ اُن تمام معاہدات، قوانین ،ضابطوں و اخلاقیات کا مرکب ہے کہ جو سماج چلانے والوں و سماج میں رہتے افراد کے درمیان اس نیت سے کیا جائے کہ تمام سماجی; و پارلیمانی اور ادارہ جاتی سرگرمیوں کو منظم انداز میں رواں دواں رکھا جا سکے۔ ہم اسے ایک ایسے متفقہ فیصلے کی نسبت بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے تحت سماج کی تمام اکائیاں کسی حد تک اپنی مکمل آزادی سے دستبردار ہوتے مجموعی اچھا ٰئیوں کی جانب را غب ہوتے ہیں ،چو نکہ مختلف اسباب کے سبب کو ئی بھی انسانی سماج خودرو انداز میں خود کو منظم رکھنے کی صلا حیت نہیں رکھتا اس لیے اس ضروت کو ھمیشہ سے محسوس کیا گیاہے کہ کچھ قوانین، ضابطوں، اخلاقیات و باھمی معاہدات کے تحت اسے قابو میں رکھتے منظم کیا جاسکے۔ کسی بھی معاشرے پہ اطلاق ہونے والے ان تمام قوانین ،معاہدات ،ضابطوں و اخلاقیات کو ہم مجموعی حوالوں سے عمرانی معاہدات کہہ سکتے ہیں، ۔ان کا بنیادی مقصد معاشرے میں موجود تمام انسانوں کے مکمل آزادی کو کسی حد تک محدود کرتے انسانوں کو دیگر انسانوں کی آزادی چھیننے سے روکنے کیساتھ ساتھ معاشرے کو اس انداز میں منظم کرنا ہے کہ وہ آپسی تضادات کا شکار ہوتے ہوے ٹھوٹ پھوٹ کا شکار نہ جائیں اور معاشرہ مجموعی حوالوں سے ان سماجی معاہدات کی پاسداری کرتے ہوے مزید منظم و اجتماعی مفادات کا ضامن بنا رہے اور فرد اور معاشرہ دونوں اپنے لیے اور خود ایک دوسرے کے لیے بھی مفید ھوں
پاکستانی سماج کی موجودہ کفیت میں ضروری ہے کہ ریاست اور عوام کے مابین ایک نیا عمرانی معاہدہ ہو جس میں عوام کے حقوق و فراہض اور ریاست کی ذمہ داریوں کا ارسر نو تعین اور تشریح ہو تبھی جا کر ریاست پاکستان اور پاکستانی سماج ایک صحت مند معاشرے اور ایک کامیاب ریاست کی تشکیل کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں نئے عمرانی معاہدے میں جملہ ریاستی اداروں کی حدود و قیود کا تعین اور انکے فراہض اور دائرہ کار کی پراپر تشریح لازمی جز ہو ۔
ریاست کے اندر موجود جملہ سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی انکے افکار اور ریاست سے وفاداری کے بارے تمام تر نقات کی وضاحت اور اپنے مخصوص نظریات اور لاءعمل کی جامع تشریخ کا ایک ضروری عمل ہونا چاہیے داخلہ اور خارجہ امور کے متعلق ریاست کی جامع پالیسی کے متعلق معاشرے کے جملہ طبقات کو اعتماد میں لینے کے بعد ریاست ایک مکمل پالیسی واضح کرے ریاست کے اندر قانون و آہین کی بالادستی اولین قرار دے دی جاے کوہی مذہبی گروہ ریاست پر حاوی نہ ہو معاشی ، تجارتی اور عسکری پالیسیاں ریاست کو عوام کے اعتماد سے واضح کرنا ہوں گی اگر پارلیمانی نظام کے برعکس سماج کے جملہ طبقات صدارتی نظام پر متفق ہیں تو اسی نظام حکومت کی راہیں ہموار کی جاہیں بھان بھان کی بولیاں بند کروا کر ریاست کے کاروبار حکومت کے لیے آہندہ تیس سال کے لیے ایک واضح پالیسی کاتعین کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے یہ ثابت ہو چکا کہ سابقہ نعرے ،تمام تر تجربے ناکام ہو چکے اگر ان میں جان ہوتی تو آج پاکستانی سماج افراتفری کا شکار نہ ہوتالہذا سماج کے تمام طبقات کے صاحب راے اور نادر روزگار لوگ باہمی اتفاق راے اور اجماع سے ایک نہے عمرانی معاہدے کی راہ ہموار کریں تاکہ مافیاز اور جتھے اور پریشر گروپسکو ریاست کے تابع رکھا کر بدمعشیہ سے نجات ممکن ھو سکے۔
دنیا ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم ہیں کہ ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہیں اور ستر برس پچاس برس اور تین عشرے قبل کے ایشوز پر بحث کر کے خود کو کوستے اور الجھا رہے ہیں نیا دور اور نئے عہد کے تقاضے علحدہ ہیں اور ہم سب نے مل کر نئےعہد کے تقاضوں اور چیلنجز سے عہد براں ہونا ہے پاکستانی عوام اور ریاست کے مابین تعلقات کا تعین اور داہرہ اختیار کی حدود اور باہمی ذمہ داریوں کے حوالے سے نہی ترجہحات کے حوالے سے بحث کا ہونا اور منطقی انجام تک پہچنا ضروری ہو چکا ہے ریاست کو اپنی جغرافیاہی حدود کو مدنظر رکھتے ہوے اپنے خارجی تعلقات استوار کرنے ہوں گے فالتو کی پراکسیز کو ترک کرتے ہوے مملکت پاکستان کو خالصتاً ایک فلاحی ریاست بنانے کے حوالے سے تکودو کرنا ہو گی شمشیر و سناں کے بجاے صحت و تعلیم اول ہیں کا نکارہ بجانا ہو گا صحت ،تعلیم ،روزگار ،اور امن و امان میں بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے جمہوری عمل کو روادواں رکھنے کے لیے حالات کو سازگار بنانے کی سعی کرنی ہو گی ادارے اپنی اپنی ڈومین میں رہتے ہو ے کاروبار حکومت چلاہیں گے ریاست کو غیر مذہبی کیا جاے ریاست کا کوہی سرکاری مذہب نہیں گا ذیادہ نہ سہی تو بنگلا دیش ماڈل کو ہی دیکھتے ہوے اپنی ترقی کی منازل کے حصول کے لیے ترقی کی راہ پر سفر کیا جاسکتا ہے ایک مضبوط اور ڈھیلے ڈھلے وفاق وفاق کیساتھ ملک چلانے کی راہ ہموار کی جاے ملک کی تمام اکاہیوں کو ذیادہ سے ذیاد بہ اختیار بنایا جاے جس کے جتنے وساہل ہیں اسکو اس قدر شہیر دیا جاے تاکہ احساس محرومی اور علحدگی کے جذبات کی شدت میں کمی واقع ہو سکے