اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا

اسلام آباد: اختر مینگل نے بلوچستان کے مسائل پر قومی اسمبلی میں بات نہ کرنے پر اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور کہا ہے کہ یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس بات کا اعلان انہوں ںے پارلیمنٹ میں محمود خان اچکزئی کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت میں کیا۔ بعدازاں گفتگو کے اختتام پر انہوں ںے اپنا استعفی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادیا۔میڈیا ٹاک میں انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں نے آج فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے، بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی۔انہوں نے کہا کہ جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے، میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاؤنٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نہ کوئی بات سنتا ہے۔اختر مینگل نے کہا کہ یہاں پر لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا، آج جو آئین کی بات کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں آئین کے مطابق بات کرے گا ان سے بات کریں گے، کیا اسمبلی آئین کے مطابق نہیں؟ ہم تو اسمبلی میں بات کر رہے تھے، ہمیں اسمبلی میں بات نہیں کرنے دیتے۔بلوچستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی کی میٹنگ کوئٹہ میں بلائی گئی، ہمیں بھی دعوت دی گئی، 75 سال سے ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہا، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی میں کئی سال پہلے کر چکا ہوں لیکن کسی کو پروا نہیں، خود اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے میں مایوس ہو چکا ہوں، محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید انہیں اس پارلیمنٹ سے کچھ ملے گا۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکٹائے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں؟ آئین کے بنانے والے نہ خود کو بچاسکے نہ آئین کو، چار ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجائے ہیں جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چئیرمین بنا دیا جاتا ہےآج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جارہی۔اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کسی بھی قومیت کا کوئی بندہ مارا گیا ہے تو ان کی قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتی، سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا، 23 جولائی 2023ء کو پی ایم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی، اس میں نے کہا کہ اگر میری سیاست کی آپ کو ضرورت نہیں تو ہم کنارہ کشی اختیار کرلیں گے، پھر میرے کارکنان جہاں بھی جائیں، جس بھی پارٹی میں جائیں اس کا کوئی ذمہ دار نہیں اس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں۔انہوں ںے کہا کہ مجھے نصیحت کرنے والے شخص کی وفات ہو چکی، ان کی تدفین چھوڑ کر میں یہاں بات کرنے آیا لیکن ہمیں نہیں سنا گیا، آج میں اسمبلی کی رکنیت سے سے استعفی کا اعلان کرتا ہوں، یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے لیکن میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔دریں اثنا انہوں نے استعفیٰ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادیا جس میں انہوں نے لکھا کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا، اس ایوان کی طرف سے ہمیں مسلسل پسماندہ اور نظر انداز کیا گیا، ہر روز ہمیں دیوار سے دھکیل دیا جاتا ہے، ہمارے پاس اپنے کردار پر نظر ثانی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔انہوں نے لکھا کہ یہ بات تیزی سے واضح ہوگئی ہے کہ ہماری بات کرنے یا احتجاج کرنے کی کوششوں کو دشمنی سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے، ہمارے لوگوں کو یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے یا انہیں غدار قرار دیا جاتا ہے ایسے حالات میں اس حیثیت میں جاری رہنا ناممکن ہے، میری یہاں موجودگی اب ان لوگوں کے لیے کوئی کام نہیں کرتی جن کی میں نمائندگی کرتا ہوں اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ میرا استعفیٰ قبول کرلیں۔استعفیٰ جمع کرانے کے بعد صحافیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسپیکر آفس میں نہیں تھے سیکرٹری کو استعفیٰ جمع کروادیا، رکن بلوچستان اسمبلی اور دو سینٹرز کے استعفی سے متعلق فیصلہ پارٹی کرے گی، آج اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کے سوا کوئی اپوزیشن کھڑی نہیں ہوئی، اپوزیشن الائنس میں رہنے کا فیصلہ بھی پارٹی کرے گی