سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی

راولپنڈی: سائفر کیس میں سابق چئیرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی پر آج فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج ابولحسنات ذوالقرنین نے کی۔ وکلاء صفائی کی جانب سے دائر 6 متفرق درخواستیں عدالت نے نمٹا دی، سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔دوران سماعت، شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا کی رسائی جیل ٹرائل تک نہیں، اوپن ٹرائل کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اوپن ٹرائل اسطرح نہیں ہوتا۔ جج ابو الحسانت ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اندازہ نہیں میں کس طرح مینیج کر رہا ہوں، ابھی بھی ایک گھنٹہ سپرنٹنڈنٹ کے پاس بیٹھ کر آیا ہوں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اندازہ نہیں آپ کو کو کتنا ریلیف دیا ہے او آئندہ بھی دیں گے، جو بھی ہوگا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا آپ ڈریں مت۔کمرہ عدالت میں ملزمان کے اہل خانہ کو آگے آنے کی اجازت دی گئی۔بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمیشہ درخواست کی ہے کہ سائفر کیس کی کارروائی عجلت میں آگے بڑھائی جا رہی ہے، ہم نے دو فیصلوں کو چیلنج کر دیا ہے۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سوال کیا کہ آج تک جتنی سماعتیں ہوئی کیا جلدی ہوئی، میں وقت سے پہلے بات نہیں کرتا جو کروں گا میرٹ اور حق پر کروں گا، مجھے نہیں پتہ کل کیا فیصلہ ہوگا اگر کسی کا جرم نہیں بنتا اس کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا فائدہ نہیں۔ ہمیں بتائیں عدالت مزید کتنا التوا دے، عدالت متوازن اور نیوٹرل ہوکر چل رہی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب اوپن کورٹ کا فیصلہ موجود ہے تو میڈیا کو کیوں روکا جا رہا ہے۔عدالت نے کہا کہ جیل انتظامیہ سے بات کروں گا میڈیا کے لوگ بھی اونچی آواز میں بات کرتے ہیں، عدالت کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے جس کو برقرار رہنا چاہیے، پچھلی سماعت پر ایک صحافی نے باہر جاکر پتہ نہیں کیا بولا اسکی نوکری چلی گئی۔وکیل عثمان گل نے کہا کہ ہمیں چالان کی مکمل کاپیاں نہیں دی گئی، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو چالان کی دو دو کاپیاں دی گئی ہیں، سات دن کے اندر آپ نے کوئی اعتراض جمع نہیں کرایا۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے دھوپ میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل کے کمیونٹی سینٹر میں کی گئی۔ ملزمان کی جانب سے صحت جرم سے انکار پر استغاثہ کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جانے تھے۔واضح رہے کہ ملزمان کو گزشتہ سماعت پر مقدمہ کی نقول تقسیم کر دی گئی تھیں۔