کوپن ہیگن: اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک ریاست تسلیم کرلیا جس کا اطلاق 28 مئی سے ہوگا جب کہ اسرائیل نے جواب میں ان ممالک سے اپنے ایلچیوں کو واپس بلالیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ناروے کے وزیراعظم جوناس گہر اسٹور نے کہا کہ اگر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مشرق وسطی میں قیام امن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔گہر اسٹور نے پریس کانفرنس میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا بنیادی حق حاصل ہے۔ناروے کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ 1993 میں اوسلو کے پہلے معاہدے کے 30 سال بعد ہوا ہے۔اسی طرح آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ اسپین اور ناروے کے ساتھ مل کر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج آئرلینڈ اور فلسطین کے لیے ایک تاریخی اور اہم دن ہے۔ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے بھی اعلان کیا کہ وزراء کونسل منگل 28 مئی کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی منظوری دیدے گی۔وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی تکلیف دہ اور تباہ کن کی پالیسی کے ساتھ مسئلہ فلسیطن کے دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔اسرائیل نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدام پر آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیروں کو واپس آنے کا حکم دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے خبردار کیا کہ آج، میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک سخت پیغام بھیج رہا ہوں۔ اسرائیل اس پر خاموش نہیں رہے گا۔یاد رہے کہ یورپی یونین کے کئی ممالک نے گزشتہ ہفتے اشارہ دیا تھا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔یورپی ممالک کے اس اقدام کے سب سے بڑے محرک ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے مارچ میں کہا تھا کہ آئرلینڈ نے سلووینیا اور مالٹا کے ساتھ مل کر دو ریاستی حل کو دیرپا امن کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔واضح رہے کہ یہ کوششیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب غزہ میں حماس کو شکست دینے کے لیے اسرائیل کی جارحیت سے معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور 7 ماہ میں اب تک 35 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔