لاپتہ افراد کیس میں اِن کیمرا بریفنگ کیلئے آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی افسران کی کمیٹی طلب

لاپتا افراد کیس میں اِن کیمرا بریفنگ کے لیے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی افسران کی کمیٹی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طلب کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے ‏14 لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی جسٹس طارق محمور جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر بنچ کا حصہ تھے۔ دوران سماعت وزارت دفاع سمیت مختلف متعلقہ اداروں نے تفصیلی رپورٹس پیش کی۔عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو ہدایت دی کہ آپ کے سینئر آفیشلز کی جو کمیٹی بنی تھی وہ آئے اور عدالت کو سمجھائے۔ عدالت نے بند لفافے میں سر بمہر رپورٹ وزارت دفاع کے نمائندے کو واپس کردی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک ایک کیس میں کمیشن نے بیس بیس پروڈکشن آرڈرز حاصل کے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں لاپتہ افراد کمیشن دھول جھونک رہا ہے، لکھا ہوا ہے جبری گمشدگی ہوئی پھر بھی آپ کے لوگ پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کر رہے، مجھے سخت تکلیف ہوئی جو کمیشن کی رپورٹس میں نے پڑھیں ہیں، یہ نظرثانی کا اختیار کمیشن کے پاس کہاں ہے میں نے پڑھا کہیں نظر نہیں آیا، میرے آرڈر پر عمل ہوگا اگر نہیں ہو گا تو پھر مجھے یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہیں، آج ہم آرڈر کر رہے ہیں جن افراد کو کمیشن جبری گمشدہ ڈکلئیر کرچکا ان کی فیملی کے لیے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اگر اے ٹی سی پر یقین نہیں تو پھر بنالیں ملٹری کورٹس، جتنا علاج کیا مرض بڑھتا گیا اس کا مطلب ہے علاج ٹھیک نہیں ہے، لاپتا افراد ایک حقیقت بن چکے ہیں۔وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ جے آئی ٹی میں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ اغوا میں ملوث ہیں، جو اغوا کرتے ہیں آج تک کسی کی شناخت نہیں ہوئی ان کا احتساب ہونا تو بعد کی بات ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدہ افراد بازیابی کمیشن میں 80 فیصد جبری گمشدہ افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اُن 80 فیصد لوگوں پر کیا گزر رہی ہوگی کبھی سوچا ہے؟ وہ عدلیہ سمیت ہر ادارے سے شدید نفرت کرتے ہوں گے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کتنی تعداد ہوگی؟ کتنے شہریوں کو ایسے رکھ سکتے ہوں گے؟عدالت نے حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تین رکنی کمیٹی کو اِن کیمرا بریفنگ کیلئے طلب کرلیا، کمیٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے بریگیڈیئرز اور آئی بی کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پالیسی بنائی جائے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ میکنزم بنا کر اُسے وفاقی کابینہ کے سامنے بھی رکھا جائے، میرا ماننا ہے کہ اس ایشو کو حل کرنے کا میکنزم وزارتِ دفاع بنا سکتی ہے، وزارتِ دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پالیسی بنا کر وفاقی حکومت کو دیں، مزید تفصیلات یہ عدالت ابھی تجویز نہیں کر سکتی۔جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ہم نے ابھی کمیٹی کو سنا نہیں، انہیں سُن کر شاید ہم مزید چیزیں آرڈر میں شامل کریں۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایمان مزاری سے مکالمہ کیا کہ کوئی اور تفصیل تو دیں آپ کی لسٹ میں تو صرف نام اور جگہ ہے۔