اسلام آباد: قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں حکومت کامیاب ہوگئی، ایوان میں مالیاتی بل 2021ء کثرت رائے سے مںظور کرلیا گیا جب کہ اپوزیشن کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد ہوگئیں۔نجی ٹی وی کے مطابق حکومت کی جانب سے فنانس بل کی منظوری کے لیے طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں فنانس بل پر چوتھے دن بھی بحث ہوئی۔ ایوان میں وزیراعظم عمران خان بھی موجود رہے۔ اجلاس میں ضمنی مالیاتی بل کی چھ شقیں ایک ایک کرکے منظور ہوئیں۔وزیراعظم کی آمد پر اپوزیشن نے نعرے بازی کی۔ وزیراعظم عمران خان ایوان میں پہنچے تو حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر استقبال کیا جب کہ اپوزیشن ارکان نے چور چور کے نعرے لگائے جس پر حکومتی ارکان نے زور دار طریقے سے ڈیسک بجانے شروع کردیں تاکہ اپوزیشن ارکان کے نعرے اس شور میں دب جائیں۔اجلاس کے دوران ضمنی مالیاتی بل میں ترامیم کے لیے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ متعدد تحاریک کثرت رائے سے مسترد ہوگئیں۔اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی، پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر ارکان نے پیش کیں تاہم تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد ہوگئیں۔محسن داوڑ نے زبانی رائے شماری کو چیلنج کر دیا تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے محسن داوڑ کی بات سنی ان سنی کردی۔ اپوزیشن ارکان پلے کارڈز لے کر کھڑے ہوگئے۔پیپلز پارٹی کی ضمنی بجٹ پر ترمیم پر اسپیکر قومی اسمبلی کی زبانی رائے شماری ہوئی تاہم اپوزیشن نے زبانی رائے شماری کو چیلنج کردیا۔ اسپیکر نے ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑا ہونے کا کہہ دیا، گنتی ہوئی تو حکومت کے ووٹ زیادہ نکلے۔اپوزیشن کی ضمنی بجٹ پر عوام سے رائے لینے کے لیے دی گئی ترمیم بھی مسترد ہوگئی۔ اپوزیشن کی جانب سے ضمنی بجٹ کی شق نمبر تین کے لیے ترمیم پیش کی گئی کہ ضمنی بجٹ پر عوام سے رائے لی جائے۔تجویز کے بعد اسپیکر نے ووٹنگ کرائی جس میں حکومت نے اپوزیشن کو شکست دے کر تجویز مسترد کردی۔ حکومت کو اس تجویز کے خلاف 168 ووٹ ملے جب کہ اپوزیشن حق میں 150 ووٹ حاصل کرسکی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایوان کو بتایا جائے کہ اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟ سپلیمنٹری فنانس بل میں اتنا ٹیکس کبھی سامنے نہیں آیا، فنانس، بل کا اثر غریب آدمی پر آئے گا اور اس بل کے بعد بے پناہ مہنگائی آئے گی جب کہ تیل اور بجلی کی قیمتیں بھی ہر ماہ بڑھ رہی ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خزانہ ایک طرف کہہ رہے کہ وہ روٹی، ڈبل روٹی کی ترامیم مان رہے ہیں، اگر وہ مان رہے ہیں تو پھر ہماری ترامیم کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ وزیرخزانہ یہ بھی کہتے ہیں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپوزیشن کیوں شور مچا رہی ہے؟ ہم آپ کا کراچی گھر کا ایڈریس جانتے ہیں، جائیں عوام سے پوچھیں وہ کیوں شور مچا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ عوام کے پاس نہیں آئیں گے تو ہم عوام کو آپ کے پاس لے آئیں گے اور آپ سے پھر پوچھیں گے مہنگائی کیوں؟ آپ اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو اس آئی ایم ایف کے بجٹ کو مسترد کریں، ہمارے ساتھ آئیں ہم ان معاشی حالات سے عوام کو نکالیں گے۔اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے اعتراضات پر حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ کو جواب دینے کا کہا تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین کو جواب دینے میں مشکل پیش آئی۔شوکت ترین نے کہا کہ یہ صورتحال صرف تین سال کی وجہ سے نہیں ہوئی، یہ صورتحال گزشتہ تیس سال کی ہے، جو سابق حکومتیں رہی ہیں ان کا کام تھا کہ وہ اس وقت اقدام اٹھاتیں، میں اس سے زیادہ کوئی جواب نہیں دے سکتا۔مزید اعتراضات پر شوکت ترین نے ارکان اسمبلی کو کہا کہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ اتنا بڑا بل کیوں لے آئے، کیا واویلا مچا ہوا ہے کہ طوفان آگیا، بیکری اشیاء، دودھ، سولر پینلز اور لیپ ٹاپ پر ٹیکس نہیں لگا رہے، جب میں تقریر کروں گا تو آپ کو پتا چل جائے گا، حکومت ڈاکیومنٹیشن چاہتی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ دوستوں کا شور مچ رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے برباد کر دیا اور ہماری خود مختاری پر سودے بازی ہورہی ہے، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تیرہ بار آئی ایم ایف کے پاس گئے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے تیرہ مرتبہ ملک کی خودمختاری کو داؤ پر لگایا۔شوکت ترین نے کہا کہ حالات کے پیش نظر ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور ہم مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس گئے، ملکی برآمدات گزشتہ حکومت سے 50 فیصد زائد ہیں، رواں سال برآمدات 31 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی، کورونا کے باوجود معشیت ترقی کررہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے جو ترمیم دی ہے منی بجٹ میں وہ بڑی اہم ہے، چھ ماہ پہلے وزیر خزانہ نے ایوان کو بریفنگ دی تھی کہ ملکی معیشت بہت بہتر ہوئی ہے، وزیر خزانہ نے جس جنت جس کا مشاہدہ ہمیں جون 2021ء میں کرایا تھا اسے کون سا اسکڈ میزائل لگا؟ احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں حکومت نے اپنے مخالفوں اور سرکاری افسروں کے خلاف جھوٹے کیس بنائے، اس وجہ سے آج فیصلہ سازی مفلوج ہو چکی ہے، پیٹرول مہنگا کرکے انہوں نے گاڑی والے کو موٹر سائیکل پر منتقل کردیا جب کہ موٹر سائیکل والے کو سائیکل پر منتقل کردیا۔مالیاتی بل کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظوری کے لیے ایوان میں پیش کردیا۔ بل پیش ہوتے ہی احسن اقبال نے کہا کہ اسپیکر صاحب! اسٹیٹ بینک بل کی منظوری سے ملکی خودمختاری داؤ پر لگانے والوں میں آپ کا نام بھی لیا جائے گا، پاکستان کے عوام کی نظریں آپ پر ہیں، میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ اس بل کو منظور نہ ہونے دیں، ہم اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر نے کہا کہ اگر اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ملک کے مفاد میں ہے تو اسے رات کی تاریکی میں کیوں منظور کیا جارہا ہے؟ ہم اپنا معیشت کا پورا نظام تبدیل کرنے جارہے ہیں اور ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ابھی سال میں چار مرتبہ رپورٹ دیتا ہے لیکن اس بل کی منظوری کے بعد اسٹیٹ بینک سے پالیسی پر کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا جب کہ ہم ہنگامی صورتحال میں اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکیں گے، اس طرح حکومت کا کردار مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے، گورنر اسٹیٹ بینک کا اختیار اور تنخواہ پاکستان کے حساب سے ہونی چاہیے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ہماری پارلیمنٹ اور عدلیہ کو نہیں بیرونی اداروں کو جواب دہ ہوگا اور دشمن کو اس صورتحال کا فائدہ ہوگا، ہمارا ایٹمی پروگرام کل بھی ان کے نشانے پر تھا آج بھی ان کے نشانے پر ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اداروں کو خودمختار کرنا پی ٹی آئی کا منشور تھا، اسٹیٹ بینک بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جائے گا، حکومت کے پاس اسٹیٹ بینک چلانے کی پوری اتھارٹی ہوگی، پچھلی حکومتوں نے ساڑھے سات ٹریلین کے نوٹ چھاپے لیکن آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے اڑھائی سال سے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا، ہم اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینا چاہتے ہیں، اسٹیٹ بینک کو جو بورڈ آف گورنرز چلائے گا اس کی تعیناتی ہم کریں گے۔بعدازاں اپوزیشن کی تحریک کثرت رائے سے مسترد ہوگئی اور اسٹیٹ بینک بل 2022ء منظور کرلیا گیا۔ اپوزیشن نے ایک بار پھر ووٹنگ کو چیلنج کیا مگر ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ پر گنتی کروانے سے انکار کردیا جس پر اپوزیشن نے ایوان میں شدید احتجاج کیا اور اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور نعرے بازی کی جب کہ حکومتی ارکان وزیراعظم کی نشست کے قریب جمع ہوگئے۔اپوزیشن کے شور میں بھی بل کی شق وار منظوری جاری رہی۔ اسی شور میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل ، اور اسلام آباد ہیلتھ کیئر مینجمنٹ اتھارٹی بل 2021، اوگرا ترمیمی بل 2021ء سمیت دیگر بلز ایوان میں کثرت رائے سے منظور کرلیے گی۔