تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا: الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔
8 سال بعد پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوگی؟ کیا عمران خان پر غلط بیانِ حلفی دینے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہو گا؟ کیا فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں یا پھر پارٹی کو کلین چٹ ملے گی؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کل صبح دس بجے فیصلہ سنائے گا۔
تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، الیکشن کمیشن#GeoNews pic.twitter.com/xIXeJ9ttW5
— Geo News Urdu (@geonews_urdu) August 1, 2022
الیکشن کمیشن کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے کازلسٹ جاری کردی ہے۔ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون کو محفوظ کیا گیا تھا۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کا پس منظر
کاز لسٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر دو ارکان فیصلہ سنائیں گے۔
14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں تاہم 21 جون 2022 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔
اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔
یہ اکاؤنٹس اسد قیصر ، شاہ فرمان ، عمران اسماعیل ، محمود الرشید ، احد رشید ، ثمر علی خان ، سیما ضیاء ، نجیب ہارون ، جہانگیر رحمان ، خالد مسعود ، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔