مودی کا چہرہ بے نقاب ،ٹرمپ کے بعد امریکہ سے کشمیریوں کیلئے ایک اور بڑی آواز بلند

واشنگٹن(این این آئی)پانچ اگست سے پابندی کا شکار مقبوضہ کشمیر کے مظلوم شہریوں کی آواز امریکا میں بھی سنی گئی ہے جہاں اہم اراکین کانگریس نے نئی دہلی پر زور دیا ہے کہ علاقے سے مقبوضہ وادی علاقے سے قبضہ ختم کر کے کشمیریوں کو بولنے کی اجازت دی جائے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی کانگریس کی ہاؤس کمیٹی برائے آرمڈ سروسز کے چیئرمین ایڈم اسمٹھ نے امریکا میں بھارتی سفیر سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے صورتحال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رکن ایڈم اسمتھ نے بھارتی سفیر کو بتایا کہ ان کے کچھ ساتھی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے 5 اگست کے بعد علاقے کا دورہ بھی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی روابط منقطع ہونے، فوجی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور کرفیو کے نفاذ پر جائز تحفظات ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی تنہا ہیں جبکہ پورے علاقے کا محاصرہ جاری ہے جہاں سے باہر رابطہ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

ایڈم اسمتھ نے بھارت کو یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ اس فیصلے کے ممکنہ نتائج خطے کی مسلم آبادی اور دیگر اقلیتوں پر حال کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی اثر انداز ہوں گے۔دوسری جانب کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سربراہ ایلیٹ اینگل اور سینیٹر باب مینیڈیز نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت بھارت کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے تحفظ اور یکساں حقوق کا مظاہرہ کرے جس میں اسمبلی کی اجازت، معلومات تک رسائی اور قانون کے تحت یکساں حفاظت شامل ہے۔امریکی قانون سازوں نے بھارتی حکومت کو یاد دہانی کروائی کہ شفافیت اور سیاسی شمولیت، جہموری نمائندوں کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ’بھارتی حکومت جموں اور کشمیر میں ان اصولوں پر عملدرآمد کرے گی۔دوسری جانب کانگریس رکن ییٹی کلارک کا کہنا تھا کہ انہیں کشمیر کی صورتحال پر سخت تشویش ہوئی اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے انہوں نے اس کے لیے آواز بھی بلند کی۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو یہ سب کرنے کا کوئی حق نہیں جو وہ کشمیر کی عوام کے ساتھ کررہے ہیں۔اور اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی آوازیں انصاف، خودمختار حکومت اور مذہب کی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک کے لیے بلند کریں، وزیراعظم نریندر مودی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم لازمی طور پر اپنی آواز بلند کریں گے۔دوسری جانب ایڈم اسمتھ نے یہ بھی بتایا کہ ان کے جن ساتھیوں نے 5 اگست کے بعد کشمیر کا دورہ کیا انہوں نے بتایا کہ وہ خود اپنی زندگی کے حوالے سے خوفزدہ تھے اور کشمیر میں مقیم اپنے اہلِ خانہ کے لیے سخت پریشان تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کو اس خوف کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے اور دنیا کو شفاف طریقے سے دکھانا چاہیے کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔