نیروبی: سینئر صحافی ارشد شریف کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت پر کینیا کی پولیس نے اپنے پہلے بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے کہا ہے کہ گاڑی سے اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں ایک اہلکار زخمی بھی ہوا۔
کینیا پولیس کی فائرنگ میں معروف صحافی ارشد شریف کی ہلاکت پر نہ صرف مقامی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کئی اہم سوالات اُٹھائے تھے جن کا جواب دینے کے بجائے کینیا پولیس نے اپنے پہلے بیان پر یوٹرن لے لیا۔
کینیا کے میڈیا پر ارشد شریف کیس پر پولیس کی ایک نئی رپورٹ زیرگردش ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ روکے جانے پر مقتول کی کار رکی نہیں بلکہ کار سے ’’جی ایس یو‘‘ آفیسرز پر فائرنگ کی گئی۔
نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کی کار سے جی ایس یو آفیسرز پر فائرنگ سے 1 کانسٹیبل کے زخمی ہونے پر اہلکاروں نے اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی جس میں ایک جان لیوا گولی ارشد شریف کے سر پر لگی۔
کینیا کی بدنام زمانہ فورس ’’جی ایس یو‘‘ نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اگر بالفرض گاڑی سے فائرنگ کی گئی تھی تو اسلحہ برآمد کیوں نہیں ہوسکا اور آیا کانسٹیبل کو لگنے والی گولی کا فرانزک ٹیسٹ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل کینیا پولیس نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شناخت میں غلطی کے باعث پولیس کی فائرنگ سے ارشد شریف کی ہلاکت کا بیان جاری کیا تھا اور قتل کی تحقیقات کے عزم کا بھی اظہار بھی کیا تھا۔
کینیا کے میڈیا کے مطابق ہلاکت کے روز صحافی ارشد شریف نے ایک مصروف دن گزارا تھا وہ نیروبی میں اپنے میزبان خرم احمد کے ساتھ انٹرٹینمنٹ کمپلیکس گئے تھے جہاں مشہور زمانہ شوٹنگ رینج بھی ہے۔
واپسی پر ارشد شریف کی گاڑی پر پولیس نے فائرنگ کی تو ڈرائیور خرم احمد نے ایک اور شخص نقار احمد کو فون کرکے پولیس فائرنگ سے آگاہ کیا جس پر اس نے خرم احمد کو گاڑی گھر لانے کا کہا تاہم جب تک گاڑی نقار احمد کے گھر تک پہنچی، ارشد شریف کا انتقال ہوچکا تھا۔
واضح رہے کہ ارشد شریف کی گاڑی پر 9 گولیاں لگی تھیں اور صرف ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی جس سے ان کی موت واقع ہوگئی جب کہ ان کے میزبان اور گاڑی چلانے والے خرم احمد محفوظ رہے۔ خرم احمد اور نقار احمد کے بارے میں تاحال معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا ارشد شریف سے کیا تعلق تھا اور نہ ارشد شریف کے کینیا جانے کی وجہ معلوم ہوسکی ہے۔