تحریر۔ سید نجم الحسن گیلانی
وہ کسی نے خوب کہا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی جس پارٹی نے سیاست اور بد اخلاقی کے لئے سوشل میڈیا کو میدان بنایا اور پھر اس کا سہارا لے کر دوسروں کو گالم گلوچ بد اخلاقی بد تمیزی کی تمام حدیں پار کر دیں اور دعوے دار تھے کہ ہم ریاست مدینہ بنائیں گے اور تقریروں میں اسلامک ٹیچ دینا ہاتھ میں تسبیح پکر کر عوام کو بےوقوف بنایا وہ کسی نے سچ کہا تھا پاکستان میں دو چورن بکتے ہیں یا اسلام کا یا تو امریکہ کا موصوف نے دونوں چورن بیچے اور میرے خیال میں اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے یہاں تک کہ ایک حضرت سے میری گفت وشنید ہو رہی تھی تو آپ فرمانے لگے کہ خان صاحب اللہ کے ولی ہیں جب یہ بات میں نے سنی پہلے تو ان کی کم عقلی کا بھی اندازہ ہوا پھر میں حیران ہو گیا کہ لوگ اتنے بے وقوف ہوتے ہیں کوئی آ کے ریاست مدینہ کی بات کرے کہ میں ریاست مدینہ بناؤں گا اور جس کو یہ بھی نہ پتا ہو ریاست مدینہ میں عورتوں کی عزت کی جاتی تھی خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کی بیٹی کو چادر دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا کہ گھر تک چھوڑ آؤ خان صاحب ایک جلسے میں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور ساتھ اسی جلسے میں خود ہی مریم نواز کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں خان صاحب اگر واقعی آپ سچے ہیں تو اسلام دوسرے مسلمانوں کے معاملات کا پردے کا حکم دیتا آج اگر آپ کسی کے رازوں کا پردہ رکھیں گے کل اوپر والا آپ کے رازوں کا پردہ رکھے گا خیر بات لمبی ہو گئی مگر حضرت کی وہ بات آج تک یاد ہے خیر اس وقت میں حیران بھی ہو گیا اور پریشان بھی پہلی بات تو یہ ہے دور دور تک ولی کی تعریف ان پہ صادق آتی ہی نہیں حال ہی میں جو آڈیو ز گفتگو سامنے آئی ہیں کوئی ذی شعور شخص کرنا تو کیا سن بھی نہیں سکتا جس میں تھوڑی بہت شرم حیا ہو چہ جائیکہ وہ نئی ریاست مدینہ کا دعویدار ہو ہاتھ میں تسبیح ہو اور نوجوانوں کی تربیت کا داعی ہو اسلامی ٹچ کا موجد ہو اپنے آپ کو قوم کا باپ کہتا ہو یہ تو کھلی منافقت ہے اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے قوم آڈیو ویڈیو کا سن کر حیران بھی ہے اور پریشان بھی کہ وہ کیوں آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلتی رہی ذرائع کے مطابق ابھی مزید ایسی آڈیوز ویڈیوز سامنے آنا باقی ہیں جن میں مزید سب کچھ سامنے آ جائے گا موصوف جو ریاست مدینہ کی بات کرتے تھے شاہد انہیں پتہ نہیں فحش گفتگو اور فحشی پر اسلامی سزائیں بھی مقرر ہیں میں درخواست کروں گا وقت کے جید علماء اکرام سے کہ ان سزاؤں کی وضاحت اور سزاؤں پر زور دیں تمہید کا مقصد یہ اجاگر کرنا تھا آڈیوز ویڈیوز کی برسات اس سوشل میڈیا پر جاری ہے جس کو پی ٹی آئی مخالفین کو گالی گلوج دینے اور ہتک آمیز پیغامات ارسال کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی اس وقت بھی ایک بڑا طبقہ تحریک انصاف اور ان کے حامیوں پر یہ کہہ کر شدید تنقید کرتا ہے کہ وہ گالی کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں اور یہ تنقید ہونی بھی چاہیے اور یہ سچ بھی ہے ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ سارا منفی کھیل محض تحریک انصاف سے جڑا ہوا ہے اورباقی سیاسی جماعتیں ، ان کی قیادت اورکارکن ان تمام معاملات سے بری ہیں ۔ تو ایسا نہیں ہے۔اور نہ میرا مقصد تحریک انصاف کو نشانہ بنانا ہے تحریک انصاف پہ ذیادہ غصہ کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس مقدس ریاست کی بات کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے جس ریاست کے بارے میں یہ کچھ بھی نہیں جانتے ہیں خیر یہ اعتراف کیا جانا چاہیے یہ مسئلہ تمام جماعتوں اور قیادت سمیت کارکنوں کا ہے۔ جو لب ولہجہ ہماری سیاسی قیادت کا ہے وہی لب ولہجہ نیچے سیاسی کارکنوں تک منتقل ہوتا ہے۔ماضی میں بھٹو مخالفین اور بھٹو حامیوں نے جو کچھ کیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں سوشل میڈیا نہیں تھا او رنہ ہی اس طرح کا الیکٹرانک میڈیا وگرنہ ماضی کا کھیل آج کے کھیل سے مختلف نہیں تھا ۔ طوفان بدتمیزی میں ذاتیات پر مبنی کردار کشی جن میں عورتوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا ہماری سیاست کا خاصہ تھا ۔وطن عزیز کی سیاست میں عدم برداشت ، گالم گلوچ ، الزام تراشی ، کردار کشی اور اخلاقیات کی پامالی کوئی نئی بات نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی مخالفت میں اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانگ کر کردار کشی کی بدترین مثالیں قائم کیں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئی محترمہ بینظیر بھٹو کی غلط تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئیں مخالفین کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئیں الزامات لگائے گئے مگر آج سوشل میڈیا پر اخلاقی…