تحریر سردار شاہد اختر یواےای
ایک سال گزرنے کے بعد بھی ہاتھوں کی کپکپی رکی نہیں جب یہ لکھنا پڑتا ہے کہ ساجد صادق ہم میں موجود نہیں ہے. ریاست جموں کشمیر کی آزادی خود مختاری خوشحالی اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد کے سفر میں آن گنت نوجوانوں نے اپنی جوانیاں دی پوری پوری زندگیاں دی لیکن وہ ادھورے خواب لیکر کئی لوگ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور تہہ خاک ہو گے لیکن دھرتی کے اوپر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے ان میں ایک ساجد صادق نام کا نوجوان تھا جس کے حصے میں رب تعالیٰ نے وہ عزت لکھی جو ہم پوری زندگیاں لگا کر نا پا سکے
دھرتی پونچھ اپنے حسن کے علاوہ اس لئے بھی منفرد مقام رکھتی تھی کے یہاں ہر دور میں مزاحمت کاروں کا ایک ایک کردار رہا ہے اور مزاحمت کاروں کی پوری ایک لڑی موجود رہی ہے اسی لڑی سے ساجد صادق کا بھی اندراج ہوا اور پھر اس نے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دیا
انتہا درجے کا جزباتی اور اپنی کہی بات کو منوانے اور خود کو اس پر کاربند رکھنے کا عزم رکھتا تھا اس بات سے بے خوف کے نتائج کیا ہونگے ہر دوسرا شخص یہی رائے دیتا کے یہ کسی کی سنتا نہیں ہے
خیر اس نے سننا کیا تھا یا اسے کوئی کیا کہتا وہی جو ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کے یہ جزبات چھوڑ دیں کوئی اور کام کریں کسی ایسی پارٹی میں جائیں جہاں لوگوں کے کام ہوں وغیرہ وغیرہ
مگر ساجد پوری طرح اپنے نظریات پر کاربند لیکن لچک کھانے کا نام بھی نہیں لیتا اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے آگے بڑھتا گیا پاچھوٹ کی دھرتی کا یہ خاصا رہا ہے کے وہاں ستر کی دھائی سے ہی ریاست جموں کشمیر کے معاملے کو لیکر خودمختار کشمیر کا نعرہ بہت پاپولر تھا کیونکہ ہماری یادداشت سے پہلے وہاں سردار آفتاب سابق صدر این ایس ایف کا اثر عتیق صاحب شمشاد احمد ایڈووکیٹ سعید اقبال صاحب پپو اعجاز خورشیدِ منتظر. خورشید ریشم خالد مظفر اور بہت سارے کردار تھے جنھوں نے اس نعرے کو عام لوگوں کے زہنوں میں ڈال دیا تھا اسی نعرے کو لیکر ساجد بھی چلتا رہا
دو ہزار چودہ میں پاچھوٹ کے ایک مزاحمتی مرکز کھریاں میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا پروگرام میں مرکزی صدر سمیت بہت سارے سئنیر احباب کی شرکت تھی حسب روایات وہی رولے گولے کون پہلے تقریر کرے گا کون بعد اور کس کو کس نمبر پر بلانا ہے یہ ہمارے ہاں شاید بڑا مسئلہ بنا ہوتا ہے سٹیج پر بیٹھنا اور تقریر کے لیے مناسب وقت لینا کبھی کبھی ہماری جدوجہد کا اہم حصہ بن جاتے ہیں اور اس پر ناراضگیاں جھگڑے علیحدگیان بھی ہوتی دیکھی ساجد صادق بھی سفید لباس میں ملبوس پروگرام میں پہنچا تو پروگرام کے سٹیج سیکرٹری موجودہ مرکزی صدر این ایس ایف صمد شکیل میرے پاس آ کر پوچھتا ہے کے ساجد کو بلانا ہو گا یا باہر کے مہمانوں کو ہی بلا لیا جائے تو میں نے صمد شکیل کو کہا کے ساجد کو لازمی بلانا تقریر کے لیے کیوں آنے والا الیکشن دو ہزار سولہ یہی لڑے گا یہ صمد شکیل کے لیے بھی حیران کن بات تھی سوالیہ نظروں سے اس نے مجھے دیکھا کے اتنی سینیر قیادت کہاں اور ساجد صادق کہاں برحال چھوٹے دوستوں کو سمجھایا کہ ہم نے مستقبل کی پلاننگ کر کے آگے چلنا ہے اور اسکو ہم نے آگے کے لیے پروموٹ کرنا ہے
اس دن کی اس بات سے پہلے متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی مصفع میں ساجد صادق کے حقیقی خالو اور میرے درہینہ دوست اور قابل احترام اشفاق صاحب (مرحوم) کے افیس میں اپنے علاقے کی محرومیاں اور مستقبل کے رہنماؤں کے حوالے سے اہم نشست رہی جس میں جنوبی پاچھوٹ کے مسائل اور انکا حل اور مستقبل کی پلاننگ پر ایک طویل نشست میں ساجد صادق زیر بحث رہا جب جنوبی پاچھوٹ میں رشید محمود جیسا مرد اور خورشید منتظر جیسا عوامی نمایندہ موجود تھا تو تھرڈ لائن کی لیڈر شپ پر گفتگو رہی تو جب میں نے ساجد کا نام انکے سامنے رکھا تو عجیب انداز میں اشفاق صاحب مسکرا گے اور کہتے ہیں تم ساجد کو عوامی لیڈر بنانا چاہتے ہو اور پتہ بھی ہے کے عوامی لیڈر نرم لہجے والا ہوتا ہے عام لوگوں کی بات سننے والا ہوتا ہے اور جیسے آپ بنانا چاہتے ہو وہ جزباتی چوشیلہ اور تلخ لہجے والا ہے بھلا ایسا بندا عوامی رہنما کیسے ہو گا خیر میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کے ہمیں آج نہیں بلکے دس پندرہ سالوں کے بعد کے لئے اسے تیار کرنا ہو گا تب تک اسکی رہنمائی کرنی ہو گی اور اشفاق صاحب اس پر آمادہ بھی ہو گے
دو ہزار پندرہ 26 ستمبر کو طوفانی بارش میں بیڑیں سے باغ کی طرف روانگی ہوہی فہیم اکرم شہید کی برسی تھی کامران مقصود حال مقیم سپین اور میں ایک ہی گاڑی میں روانہ ہو رہے تھے کے اچانک ساجد صادق اپنی گاڑی کو پارک کر کے شدید بارش میں آ کر ہماری گاڑی میں بیٹھ گیا اور کہا ہم ایک ساتھ چلتے ہیں راستے میں کامران کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کرتے یہ زکر بھی ہو گیا کے آپ یورپ میں دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہنا اگلے دو ہزار سولہ کے الیکشن اس سے نماییدگی کرواتے ہیں کامران نے بھی تعجب کا اظہار کیا ساجد پچھلی سیٹ پر بارش کے نظارے لے رہا تھا کے اچانک ہماری گفتگو میں مداخلت کر کے پوچھنے لگا کے کیا ڈیسکس ہو رہا ہے تب تک ساجد کے کانوں نے یہ بات نہیں سنی تھی نا اسکے گمان میں تھا اس کے اصرار پر اسکو یہ بتایا کہ اگلہ الیکشن آپ کو نامزدگی دینے کا سوچ رہے ہیں اور پلان بنا رہے ہیں تو مجھے مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یہ آپ کہہ رہے ہیں اور آپ مجھے اس قابل سمجھ رہے ہیں کیا اور اتنے سئینیر قیادت کی موجودگی میں مجھے کیسے نامزد کرو گے اگلی نشست پر اس پر بات ہو گی یہ کہہ کر ہم نے موضوع کو تبدیل کر دیا اور اگلی نشست تب ہوہی جب پارٹی کے اس وقت کے صدر پروفیسر خلیق صاحب اور موجودہ صدر لیاقت حیات صاحب کے ساتھ اپنی تجویز کو شئر کیا معروضی حالات کا جائزہ لیا پھر ساجد کے ساتھ آخری نشست کر کے یہ ٹارگٹ دے دیا کے اب آپ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں اس پلاننگ کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ پاچھوٹ اور بالخصوص جنوبی پاچھوٹ میں عوامی مزاج کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنا اور مستقبل میں ایک بہترین رہنما دینا مقصود تھا.پہلا الیکشن آیا تو جہاں سے ساجد کو قیادت کے لئے نامزد کیا گیا تھا وہاں سے ہی ہماری لوکل ٹیم کی دن رات محنت کی بدولت ساجد کو عملاً سٹیشن جتوا کر اپنا نمائندہ منتخب کر لیا تھا جیسے ہی ساجد نے زمہ زمہ داریوں کا بوجھ محسوس کیا تو عملاً نظریاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی جدوجہد میں عوام کے اندر گھسنا شروع ہو گیا اور پھر کوئی تحریک ایسی نہیں تھی جس میں ساجد نے فرنٹ لائن کا کردار ادا نا کیا ہو اور ایسا لگتا تھا کے ساجد پیدا ہی اسی لیے ہوا کہ اس نے تحریک چلانی ہے لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتا تھا اور سہی معنوں میں عوامی نمائندے کے طور پر ابھر چکا تھا. تلخی رکھنے والا ساجد کیسے بدلا کیوں بدلہ یہ کہانی پھر سہی لیکن ایسا بدلہ کے ساجد گھر گھر میں گھس چکا تھا ساجد اب محرومیوں کے خلاف مظلومیت کے خلاف ایک امید کی کرن بن چکا تھا مجھ سمیت ہزاروں لوگوں دیار غیر میں حصول معاش کی خاطر برسرِےپیکار ہیں لیکن ہمارے خطے کی خاصیت یہ ہے کہ جہاں بھی ہوں اپنے علاقے کی سیاسی سماجی کاموں میں لوگ اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ روابط بھی ہوتے ہیں میرا زاتی مشاہدہ تھا جس پر مجھے اندر سے بے حد خوشی بھی تھی کہ میرا انتخاب غلط نہیں نکلا بلکے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے وہ خوشی یہ بھی تھی کہ عام گھر کے اندر اب بچے ساجد کو کاپی کرنا شروع ہو گے تھے عام خواتیں جو کسی وجہ سے پریشان ہوتی تو انکے زہین میں ایک نام آ چکا تھا کے ساجد ہمارا فیصلہ ساجد کرے گا ہمارے پاس اب ساجد ہے ہمیں کسی سے کوئی ڈر نہیں ہے یہ سب میرے زاتی مشاہدے سے گزرا ساجد کے ساتھ رابطے کا تسلسل برقرار تھا ہر بار اگلے لاعمل کا موضوع ہوتا
ساجد نظریات کی جدوجہد اور نظریات کی مکمل حفاظت کرتے ہوئے عوامی پرتوں میں جا چکا تھا اور یہی اصل طریقہ کار تھا جس کو ساجد بخوبی سمجھ گیا تھا
آج بھی قوم پرست اور خود مختار ریاست کی بات کرنے والوں کو معاشرے میں الگ طرح سے دیکھا جاتا ہے عام لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ احتجاج کی سیاست کرتے ہیں انکو ووٹ نہیں دو لیکن ساجد کو ووٹ دیکر لوگوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہم پہلی بار اپنے ضمیر کو مطمئن دیکھتے ہیں حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ایک بزرگ سے کچھ دوستوں سمیت ملاقات ہوئی جنھوں کی آنکھوں میں آنسو تھے صرف اس بات کے لیے کے میں پچھلے الیکشن میں اپنا ووٹ ساجد کو نا دے سکا اور میں اس بات کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں یہ وہ جزبات تھے جو ساجد کی لوگوں کے حقوق کے لیے عملاً جدوجہد کے بعد تھے.محرومیوں کے معاشرے میں ہر ایک اپنے حساب سے دیکھتا ہوتا ہے کچھ لوگوں کا خیال تھا اس خطے میں ایک درویش صفت انسان سردار آفتاب بھائی کے متبادل کے طور پر ساجد موجود ہے کوئی اسکو اپنے علاقے کے رشید محمود خورشیدِ منتظر کے متبادل کے طور پر دیکھتا تھا گویا وہ ہر ایک کے لئے اس کے حساب سے کام آنے والا بن گیا تھا چاہے کسی کا گھریلو جھگڑا ہو یا کسی کے بننے بہر کا مسئلہ ہو یا کسی کے تھانے کچہری کا مسئلہ ہو یا مہنگائی اور خستہ حال سڑکوں کا مسئلہ ہو وہ ساجد کو مسیحا سمجھ رہے تھے
میرا زاتی خیال ہے کہ ان انسان دوست نظریات کے ساتھ جڑا ہر ایک سردار آفتاب ہے ساجد صادق ہے ہر ایک فہیم اکرم ہے لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ اپنی جدوجہد کو عوامی پرتوں میں لے جانے کا ہنر آتا ہو اپنے نظریات کے ساتھ مخلص ہونا ہو گا ہمیں تقاریر کے لیے پہلے دوسرے نمبر کے آپسی جھگڑے ختم کرنا ہونگے ہمیں اپنی زات کی نفی کر کے دوسرے کو اہمیت دینا ہو گی ہمیں اپنی میں میں کو کم کر کے بلکے ختم کر کے ہم ہم کی گردان کو یاد کرنا ہو گا ہماری جدوجہد آج بھی مقدس ہے اگر ہم اسے اپنی تشہیر کے بجائے عوام کی فلاح سمجھ کر کریں تو تب ہم بھی ساجد بن سکتے ہیں ہمیں اسی معاشرے میں کئی اور ساجد پیدا کرنے ہونگے ہمیں اپنے رویے درست کرنے ہونگے اس مقدس جدوجہد کے راستے میں ہم اپنی مرضی اور سوچ سمجھ کے مطابق اے ہوے ہیں ہمیں کسی نے زبردستی اس کام پر نہیں لگایا ہوا ہے اس لیے جس میں ہم ولئینٹرلی شامل ہیں وہاں بغیر کسی کریڈٹ کے اگر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو مجھے پورا یقین ہے کہ اسی طرح کا کریڈٹ ملے گا جس ساجد صادق کو بیڑیں کے گراؤنڈ میں لوگوں نے دیا ہے یقیناً لوگوں نے کریڈٹ دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جہاں بیڑیں کا اتنا بڑا گراؤنڈ کم پڑھ گیا اب ہمیں اس بات کا یقیں ہونا چاہیے کہ ہم عوامی حقوق کی جدوجہد کا اپنا مقدس فریضہ سمجھ کر سر انجام دیں تو ہمیں کبھی بھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
جو رکے تو کوہ گراں تھے جو چلے تو جہاں سے گزر گے
اے راہ یار ہم نے قدم قدم پر تجھے یاد گار بنا دیا
ساجد صادق کی پہلی برسی پر ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کے ہم اسکے اس ادھورے مشن جنکے لیے وہ برسرےپیکار تھا انکے حصول کی جدوجہد جاری رکھیں گے ساجد ہر روز یہ کہتا تھا کے یہ کھنڈرات نما سڑکیں ہر روز کسی حادثے کا سبب بنتی ہیں اور وہی کھنڈرات سڑکیں ساجد کی موت کا سبب بھی بنتی ہیں ساجد کا وہ قول کے اب وہ وقت ان پہنچا ہے کے مانگنے والے ہاتھ سے اب کام نہیں چلے گا چھننے والے ہاتھ سے کام لینا ہو گا اور یہ جو عوامی ٹیکسوں سے عیاشیوں میں مصروف ہیں انکو انکے دفاتر سے باہر لانا ہو گا ان منتخب نمائندوں کو جو اسمبلیوں میں جا کر بیٹھے ہیں انکو کھنچ کر عوام کے بھیچ لانا ہو گا تاکے انہیں عام لوگوں کے مسائل کا اندازہ ہو یہی عملاً جدوجہد ہے یہی جدوجہد آپ کو ہم سب کو عوامی رہنما بناے گی اسی جدوجہد نے تحریک کے سپاہی کو قافلے کا سالار بنا کر اس دنیا سے رخصت کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ سالار کیسے اور کس پروٹوکول کے ساتھ الوداع ہوا کہ دنیا کیا آسمان بھی رہ پڑا. ہمیں اسی کردار کی ضرورت ہے اور وہی کردار ساجد کو خراج بھی ہے اور اسکی روح کی تسکین بھی ہے اور وہی جدوجہد ہمیں کئی ساجد صادق دے گی
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی