پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے کھیلوںکی سرگرمیوں میںخطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے ۔ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے مطابق ہماری ہاکی ٹیم رینکنگ کے مطابق دنیا میں 17 ویں نمبر پر ہے ۔ پی ایس اے ورلڈ ٹاپ 50کی جاری شدہ فہرست کے مطابق اس وقت پاکستان کا صرف ایک اسکواش پلیئراس میں شامل ہے ۔
پچھلی تین دہائیوں سے کھیلوں کی دنیا حیرانکن حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ 1990 کی دہائی کے بعد سے ڈیجیٹل دورکی آمد کے ساتھ کھیلوں سمیت زندگی کے تقریباً ہر پہلو کی میں عمدگی حاصل کرنے کیلئے سائنسی تکنیک لازمی جزو بن چکی ہے۔
ہمیں چاہئے کہ کھیلوں کو تبدیل کرنے اور ان میں دلچسپی بڑھانے کیلئے ٹیکنالوجی کو استعمال کریں۔ جن ممالک نے ٹیکنالوجی کو کھیلوں میں چامل کیا اور سخت فیصلے کئے ان کےاقدامات کے بعد خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔یہ تبدیلی بہت مشکل ہوگی کیونکہ یہ چیزوں کو آپ کے دیکھنے کا انداز بدلنے پر اثر انداز ہوگی لیکن اسے لاگو کرنا اور اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ ایسی تبدیلیوں کے بعد اکثر طاقت کی ہئیت بدلتے ہوئے زیادہ ہو جاتی ہے اور بعض اوقات بے رحم ہوجاتی ہے۔
کھیلوں میں ، قومی طاقت کا تاریخی مرکز کھیلوں کی فیڈریشنوں / انجمنوں / باڈیز ہوا کرتا تھا۔ اور طاقت کا یہ مرکز اب بھی بہت سے طریقوں سے ہے لیکن تبدیلی کے وقت ، کھیلوں کے فیڈریشنوں کو نجی شعبے کے لئے راستہ بنانے اور انہیں تسلیم کرنے کیلئے جگہ دینی پڑے گی۔
انگلش پریمیئر لیگ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک کلاسک مثال ہے کہ کس طرح طاقت ور ترین فٹ بال ایسوسی ایشن (ایف اے) کو فٹ بال لیگ کے فٹ بال کلبوں کے لیڈ ماڈل کے طور پر راستہ بنانا پڑا ۔ یہ اب دنیا کی اعلیٰ ترین کھیلوں کی تجارتی خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ کچھ دیر کے وقفے کے بعد جنوبی ایشیا نے کھیلوں کے لیگز کا اپنا ہی فارمیٹ اٹھا لیا ۔ اگرچہ ہندوستانی پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) برصغیر میں پہلی نمایاں کھیلوں کی لیگ تھی، لیکن یہ 2014 میں پرو کبڈی لیگ (پی کے ایل) اور ہندوستانی سپر لیگ (آئی ایس ایل) تھی جس نے نجی شعبے کی راہ ہموار کی اور اس خطے میں کھیلوں کی لیگز کے زیر قیادت ماڈل کو پروان چڑھایا ۔
پاکستان میں اگرچہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2016 میں پہلی نمایاں لیگ تھی۔ اس کے بعد 2018 میں سپر کبڈی لیگ (ایس کے ایل) تھی جس نے نجی شعبے کی سربراہی میں کھیلوں کی لیگز کے ماڈل کی بنیادیں رکھی تھیں ۔پاکستان میں پہلی بار سپر کبڈی لیگ کامیابی سے منعقد کی گئی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر حاصل کی گئی سپر کبڈی لیگ کے مالکان پیشہ ورانہ طور پر کھیلوں کی تنظیم اسٹرابری سپورٹس مینجمنٹ ہیں ۔ کمپنی لیگز، ایونٹس اور اکیڈمیوں کے ذریعے کھیلوں کوفروغ دینے میںمصروف عمل ہے ۔
چند ماہ قبل اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ اور پاکستان ریسلنگ فیڈریشن نے مشترکہ طور پر پاکستان کی پہلی فری اسٹائل ریسلنگ لیگ کا اعلان کیا تھا ۔ اس کے علاوہ اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ نے ہاکی، بیس بال، اور رگبی ایونٹس کا کامیابی کے ساتھ انعقاد کیا ہے۔اسی کمپنی کی جانب سے زمینی حقائق اور سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے فٹ بال اکیڈمی بھی چلائی جا رہی ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے یا کنٹرول کے بعد فٹبال کی ویمن پریمیئر لیگ کا انعقاد کئے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جو کہ انتہائی خوش آئند امر ہے۔
خیال رہے کہ اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ اور پاکستان والی بال فیڈریشن کے درمیان ایک طویل مدتی معاہدہ کیا گیا تھا جس میں اسٹرابری سپورٹس منیجمنٹ نے پاکستان والی بال فیڈریشن کو تکنیکی تعاون فراہم کرنے کے لئے بطور ٹیکنیکل کولیبیٹر کام کرنا تھا اور لیگ کے کامیاب انعقاد کے لئے تمام ضروری تکنیکی معاونت فراہم کرنا تھی ۔ اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ کی طرف سے پاکستان والی بال فیڈریشن کی جانب سےضروری معلومات کی عدم فراہمی پر لیگ کو تاخیر ہوئی لیکن اس صورتحال میں فیڈریشن نے معاہدے کی منسوخی کا فیصلہ کیااورعدالت نے اسے غلط عمل قرار دیتے ہوئے غیر معینہ مدت کیلئے زائل کر دیا۔
عدالت میں معاملہ طے شدہ ثالثی میں چلا تو فیڈریشن نے اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ کے خلاف پی او اے کو باقاعدہ خط لکھ کر شکایت شروع کرنے کی استدعا کی جس میں مداخلت کی اور اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ کو ٹاسک پر لے جانے کی درخواست کی ۔
چند ہی دنوں کے بعد سیکرٹری جنرل پی او اے نے ایک مضبوط، یکطرفہ خط جاری کرکے پورے پاکستان کے کھیلوں کی برادریاں، اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ اور والی بال باڈی کی پوزیشن کی تائید کی اور اسے سر کردہ قرار دیا۔
یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا تھا جب عدالت نے ثالث کا تعین کر دیا تھا۔اس عمل سے صورتحال کو واضح طور پر دیوار کی طرف دھکیل دیا گیا، اسٹرابیری سپورٹس مینجمنٹ نے وفاق، پی او اے اور ان کے اہم عہدے داران کو قانونی نوٹس جاری کیا جس میں انہوں اپنی ساکھ کو بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے ۔پی او اے کے سیکرٹری جنرل کا یہ عمل واضح طور پر اختیارات سے تجاوز ہے ۔نجی شعبے کے ساتھ قومی کھیلوں کے فیڈریشن کے معاہدوں میں مداخلت پی او اے کا منشور نہیں ہے ۔فیڈریشن اور پی او اے دونوں کی حرکتوں سے پاکستان میں کھیلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔
کھیلوں کے لیگوں سےذرائع معاش پیدا ہوتے ہیں، جدت کے لئے جگہ پیدا ہوتی ہے اور ان میں کھیلوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور فروغ دینےکے امکانات پیدا ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔ کھیلوں کو ترقی دینے کی اجازت دینا کوئی عیش و آرام نہیں ہےبلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ کھیل ہماری بڑی آبادی کو منافع بخش اثاثے میں تبدیل کر سکتے ہیں ۔
پی او اے کی جانب سے 2023 میں وزارت بین الصوبائی رابطہ (آئی پی سی) کے ساتھ مل کر پاکستان میں سیف گیمز منعقد کرنے کے حالیہ اعلان کے بعد صدر POA نے سخت فیصلے کیے اور اپنی ٹیم میں پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے افراد کو جگہ دی۔والی بال باڈی اور پی او اے کے اجارہ داری پر مبنی اس فیصلے کیخلاف قومی مسابقتی ماموریہ ، پاکستان نے نوٹس لے لیا ہے۔اس عمل سے شایدپاکستان میں کھیلوں پر تسلط کے خاتمے کا آغاز تو نہ ہو لیکن یقینی طور پر یہ پاکستان میں کھیلوں کے لئے انتہائی حساس لمحات اور دور ہے ۔امید ہے کہ اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ اب عدالت کی لڑائیوں تک محدود نہ رہے کیونکہ یہ پاکستان میں کھیلوں کی روح کی لڑائی ہے۔