دنیا کی کسی بھی قوم کا مستقبل جاننا ہو تواس کے معیارتعلیم کوجانچ لیں۔ تعلیم کو ترجیح بنانے والی اقوام نے زمانے میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جہاں جہاں تعلیم کو پس پشت ڈالا گیا وہاں وہاں زوال ان قوموں کامقدر ہوتا چلا گیا اور ہمارے ہاں بقول حکیم الامت کچھ یوں ہوا کہ "وائے ناکامی، متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا”۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کسی بھی قوم کے مستقبل اورملک کی معیشت کی مضبوطی کی حقیقی بنیاد ہوتا ہے لیکن جب بھی اس شعبے کو تجربات اورمفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ صرف یہ شعبہ ڈوبا بلکہ اچھے مستقبل کی امید بھی ڈوبی اوراُس ملک کی معیشت بھی دریابرد ہو گئی۔ وطن عزیز میں بھی ایک عرصے سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ حکومتی و غیرحکومتی رویوں کی وجہ سے آزمائشوں کے نرغے میں ہے۔ 2002 سے 2008 کے چھ سال وہ ہیں جب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ دورتھا جب 2002 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ہائرایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور ڈاکٹرعطاءالرحمان اس کے پہلے بانی چیئرمین تعینات کئے گئے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے ملکی سیاست میں کردار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یو جی سی سے ایچ ای سی کا قیام ایک ایسا درست فیصلہ تھا جس کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کے لوہے کو بہترین تعلیم کے مواقع کے ساتھ چاندی، تحقیق و جستجو کی لگن کے فروغ سے سونا بنا سکتے تھے، اوراب بھی بنا سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے شرط صرف ایک تھی کہ ایچ ای سی کو اسی طرح چلایا جاتا جس طرح بانی چئیرمین اور اس وقت کی حکومت نے لگن، انصاف اورمیرٹ کے ساتھ چلایا۔ ڈاکٹرعطاءالرحمان کے دورمیں یونیورسٹیوں کے بجٹ میں گرانقدراضافہ ہوا، بہت سی نجی جامعات قائم ہوئیں اوران میں تعلیم وتحقیق کی ثقافت نے قابل فخر،پرشکوہ اورشاندار اندازمیں جنم لیا۔ سرکاری جامعات ہوں یا نجی سب کے لئے ایک معیار قائم کیا گیا، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کےلئے نئے نئے مواقع پیدا کئے گئے۔
وقت گزرا حکومت بدلی یا شائد ”غیرجمہوری“ حکومت بدلی تو پیپلزپارٹی کا دورآیا، صوبوں کو خود مختاری ملی ،18 ویں ترمیم کی منظوری ہوئی اور ہائرایجوکیشن کے معاملات میں وفاق اور صوبوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ صوبوں کے ہائرایجوکیشن کو دیکھنے والے محکمہ جات اور ان کے کلرک مافیا نے یونیورسٹیوں کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہوئے دیہاڑیاں لگانے کی روش شروع کر دی۔ نہ صرف نجی اداروں بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہان اور افسران کو بھی اپنے لامحدود اختیارات کے ذریعے بلیک میل کرکے لمبا مال بنایا جاتا رہا جس کی اعلی تعلیم کی تاریخ گواہ اوررکی ہوئی ہزاروں فائلیں ثبوت ہیں۔ علت کسی بھی چیزکی ہواسے اچھا نہیں کہا جا سکتا اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنا بھی آسان نہیں۔ رشوت خوری کی علت نے بھی ادارے تباہ کئے اور تاحال یہ تباہی جاری ہے۔ ملک بھرکی نجی یونیورسٹیاں اس عذاب کا کچھ زیادہ ہی شکار رہی ہیں حالانکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نجی یونیورسٹیاں پچاس فیصد سے بھی زائد کی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو پچاس فیصد پاکستانی نوجوان ان پڑھ رہ جائے جس کے ملکی معیشت پر کتنے بھیانک اثرات پڑ سکتے ہیں شائد اس کا سوچ کربھی ایک محب وطن پاکستانی کانپ جائے، آپ آج کے پاکستان میں خدمات اور پیداوار کے شعبے کی گراس نیشنل پراڈکٹ میں ان نوجوانوں کا کردار کس طرح نظرانداز کرسکتے ہیں جو ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر میدان عمل میں آیا مگر ملک و قوم کی ترقی کی نقیب یہی نجی یونیورسٹیاں بارہ بارہ سال تک اپنے کیسز کی منظوری کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتی ہیں لیکن انکے کیسز کی فائلیں کبھی ایک دفترتوکبھی دوسرے دفتر، اس دوران اگر فائل کو پہیے نہ لگوائیں اورمیرٹ کی پاسداری کا بھرم لئے یہ امید لگائے بیٹھے رہیں کہ آج نہیں تو کل ان کو منظوری مل جائے گی تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہوتی۔
نجی یونیورسٹیوں کے مسائل جب حد سے بڑھ گئے اور دوردور تک ان کا حل نظر نہ آیا تو 2020 کے شروع میں ملک بھر کی نجی جامعات نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان (ایپ سپ) کے پلیٹ فارم سے ایک فورم تشکیل دیا تا کہ اپنے جائز مسائل کے حل کےلئے مشترکہ جدو جہد کی جائے۔ راقم الحروف کے کندھوں پر اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی منظورشدہ 86 جامعات ( اور ان کے 31 سب کیمپسز) کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی ایپ سپ نے اپنا چارٹرآف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے پیش کیا جس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پچاس فیصد کے سٹیک ہولڈر نجی سیکٹرسے اس کی زندگی اور موت کے فیصلوں میں مشاورت کی جائے، اس شعبے کو بھیڑبکریوں کا ریوڑ نہ سمجھا جائے جس نے اربوں اورکھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور قوم کے شاندار مسقبل کے خواب اور تعمیر میں ریاست کا برابر کا شریک کار اور حصے دار بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سے یہ اپیل کی گئی کہ سالہاسال مختلف محکموں اور دفاترمیں چکر کاٹنے والے کیسز کو ایک چھت فراہم کی جائے یعنی ایک بے معنی، فضول اور بے کار مشق جیسے میکانزم کی بجائے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایسی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے جس سے تحقیق کا کلچر فروغ پانے کی بجائے زوال پذیر ہورہا ہے۔ مستحق طلباء کے لئے خصوصی گرانٹ نجی یونیورسٹیوں کو بھی دی جائے تا کہ وہ اگر کسی نجی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ سکیں۔ نجی یونیورسٹیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت انکی سرپرستی کرے، تعلیم کےفروغ کے مقدس مشن میں اپنا ساتھی ، دوست اور مددگار سمجھے نہ کہ مد مقابل۔ منظوریوں کے کیسز سالہا سال سے سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوں اور اس تاخیرکی سزا بھی نجی یونیورسٹیوں کو دی جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ سرکاری کی طرح نجی یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا خیال بھی رکھا جائے،انہیں ملک کی بہتری کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے، ایچ ای سی نجی جامعات کو ریسرچ، ٹریول، کانفرنس، ورکشاپس اور گرانٹس میں یکساں اورمساوی مواقع فراہم کرے۔ کئی کئی سال سے حل طلب مسائل نمٹانے کےلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جن میں سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے۔
حکومتی سطح پہ ایپ سپ کی اپیل پر فوری طور پر بہت اچھا رسپانس موصول ہوا اور پنجاب کے وزیر ہائر ایجوکیشن راجا یاسر ہمایوں نے ہر ایشو پرمعاونت کی یقین دہانی کرائی اورمشاورتی کمیٹیاں بھی بنا دی گئیں.گورنرپنجاب چوہدری محمدسرورکا رویہ بھی مشفقانہ اورہمدردانہ رہا،انہوں نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مسائل کو سمجھا اور حکم دیا کہ کوئی بھی فائل ایک ہفتے سے زیادہ نہ روکی جائے مگرایک لمبا سانس لینے کے بعد اور افسوس کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ان تمام کے باوجود پرائیویٹ سیکٹراسی کلرک مافیا کے نرغے میں ہے جو مافیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے اوائل میں نیا نیا پنپا تھا۔ مافیا کی جرات اور ہمت دیکھئے کہ وہ نیک جذبات اور مثبت ہدایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں یوں ہمیں نئے پاکستان میں بھی ان رویوں، حربوں اورمشکلات کا سامنا ہے جنہیں جدید ریاستیں صدیوں نہیں توعشروں پہلے ضرور متروک قرار دے چکی ہیں، خیرباد کہہ چکی ہیں۔
حالیہ دنوں ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا ہے، ان کی تبدیلی کے پیچھے کیاعوامل کارفرما ہیں ان سے درکنارحکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو بھی نیا چیئرمین لگایا جائے اسے وطن عزیز کی تعلیمی ضروریات، مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس وقت درپیش تلخ زمینی حقائق کا علم ضرور ہو، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ون مین شو کی بجائے مشاورت پریقین رکھنے والا ہو۔ مطلق العنان بننے کی بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو۔ ڈاکٹر طارق بنوری صاحب بھی اگر مشاورت سے فیصلے کرتے تو انکی کارکردگی کم ازکم اتنی تسلی بخش ضرور ہوتی کہ اگر حکومت انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کرتی تو اس طرح کبھی نہ کرتی جس سے رسوائی اٹھانا پڑتی۔