کالا سچ تحرير: رضوان اشرف
آج 2022 ہے اور رياست جموں کشمير کے مسئلے کو اس اکتوبر ميں پورے 75 سال ہو جائينگے۔ ان 75 سالوں ميں دُنيا کے حالات ، معمولات، طرزِ زندگی الغرض انگنت چيزيں و نظريات تبديل ہو گۓ مگر نہيں تبديل ہوا تو ميرا خيالی معاشرہ جو 1947 ميں بھی اسی خام خيالی ميں تھا کہ “کوئ آ کے اسے آزاد کرواۓ گا” اور آج 2022 ميں بھی اسی خام خيالی ميں ہی ہے۔ کوئ پاکستان کی طرف نظريں لگاۓ بيٹھا ہے تو کوئ ہندوستان کی طرف اور کوئ اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کے دروازوں پر اپنے خواب سجاۓ جُگالی کر رہا ہے۔ اگر ہم ان گُزرے سالوں کی تاريخ پر نظر دوڑائيں تو ہميں پتہ چلتا ہے کہ 1947 سے اب تک پچاس سے زيادہ ممالک آزاد ہو چُکے، اپنا حق و اختيار لے چُکے اور ہمارے ہاں ان 75 سالوں ميں کسی تحريک کے بغير صرف ايک لمبی لسٹ قائدین کی ہی بنی ہے جس ميں ہر ايک مجاہدِ اوّل و آخر، غازی ِ اوّل و آخر، سُرخيل، پاسبان، پُشتی بان، قائدِ تحريک، آزادی پسند رہنما اور پتہ نہيں کيا کيا ہيں مگر حال يہ ہے کہ زمين پر چاپلوسی کے علاوہ سرے سے کوئ تحريک موجود ہی نہيں ہے۔ سب خيالی دھماچوکڑياں اور جعلی قائدين آج ہماری چوتھی نسل کے دشمن ثابت ہو رہے ہيں۔ اس سال يعنی 11 فروری 2022 کو مقبول احمد بٹ شہيد کی 38 ويں برسی منائ جا رہی ہے اور حيرت کی بات ہے کہ بے شمار دعوؤں ، جذبات و تقارير کے باوجود کوئ ايک بھی تنظيم ايسی موجود نہيں جو کم از کم رياست جموں کشمير کی قومی آزادی و خودمختاری کی جدوجہد کو مقبول احمد بٹ شہيد کے ادھورے خوابوں کی شرمندہ تعبير کرنے کی خواہش لئے عمل ميں نظر آتی ہو۔ يہ بات اپنی جگہ کہ مقبول بٹ شہيد کی تحريک بارے حکمتِ عملی سے اختلاف کيا جا سکتا ہے مگر رياست جموں کشمير کی وحدت ، قومی آزادی و خودمختاری کے لئے اُس عہد ميں نامساعد حالات ميں جو اُن سے ہو سکا اُنہوں نے کيا۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ رياستی آزادی و خودمختاری کی اُنکی جلائ گئ شمع کو مزيد بہتر حکمتِ عملی سے اپنے عوام ميں لے جايا جاتا اور نئ نسل کو جذبہِ حُريت سے روشناس کرواتے ہوۓ رياستی وحدت، آزادی و خودمختاری کے راستوں کو جدوجہد سے مزين کرتے ہوۓ قومی آزادی کی تحريکوں ميں پوری دُنيا کے محکموں کے لئے ايک مثال قائم کی جاتی مگر افسوس صد افسوس کہ سب جعلی قائدِ تحريک نکلے جو اپنی جيب اور پيٹ سے آگے کچھ نہ ديکھ سکے۔ مقبول بٹ شہيد بھی اگر چاہتے تو ساز باز کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا بہتر مادی مُستقبل بنا سکتے تھے مگر اُنہوں نے مادرِ وطن کی آزادی و خودمختاری کی کٹھن راہ اپنا کر تختہ دار پر جھول گۓ مگر اپنی قومی حميت کا سودا نہ کيا۔ مگر جيسے پہاڑی کہاوت ہے “آگی نے پيٹہ سوہاوہ” مطلب آگ کے پيٹ سے راکھ ۔ يہی حال يہاں ميرے وطن کے ليڈر نما انسانوں کا ہے جو آزادی پسندی کے رُوپ ميں بھی ہماری نسلوں کو غلامی پر آمادہ کرتے ہوۓ رياستی وحدت کے ہر امکان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہيں۔ مقبول بٹ شہيد کی جدوجہد کا تقاضا تو يہ تھا کہ دورِ حاضر کی روابط کی سہولت سے مستفيد ہوتے ہوۓ رياست کی تمام اکائيوں کے عوام کے درميان باہمی ميل جول و روابط کی کوئ سبيل نکالی جاتی مگر عملًا ان جعلی قائدينِ تحريک نے صرف پاکستان اور ہندوستان کے مقتدر حلقوں کے اردليوں تک اپنی رسائ بنا کر اپنی جيب اور پيٹ کا سائز تو بڑھايا مگر نہ تو رياستی آزادی کی کوئ تحريک بن سکی اور نہ ہی رياست کے باقی حصوں کے عوام سے باہمی روابط کا کوئ راستہ بن پايا۔ مقبول بٹ شہيد آج جدوجہد کا ايک استعارہ بن چُکا ہے جو رياست جموں کشمير کی آزادی و خودمختاری کا داعی تھا ۔ يہی وہ خصوصيت ہے جس کی بنا پر مفلوک الحالی کا شکار وہ ليڈر بے کسی کے عالم ميں تختہ دار پر چڑھايا گيا مگر آج تک زندہ ہے اور دوسری طرف جعلی قائدينِ تحريک کروڑوں روپے کے بينک بيلنس رکھتے ہوۓ عيش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے باوجود خود کو بہروپيوں کے علاوہ کچھ نہ بنا سکے اور عملًا مر چُکے ہيں۔ ان جعلی قائدينِ تحريک نے بہت محنت سے منافقت کر کے خود کو بہروپيا بنايا مگر بے سُود ۔۔۔ حتی کہ ظالم ہندو مودی بھی ان بہروپيوں اور اُنکے مالکوں کو عیاں کر چُکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقبول بٹ شہيد کے راستے کو جدوجہد کی محنت سے مزين کيا جاۓ اور اُنکے خواب يعنی ايک آزاد اور خود مختار رياست جموں کشمير کو شرمندہ تعبير کيا جاۓ جسکی بنياد ايک مساوی سماج دولت پسندی و استحصال سے پاک معاشرے کی تعمير سے رکھی جاۓ۔ اس کے لئے سب سے پہلے جعلی قائدينِ تحريک کے بہروپ کو عوام کے سامنے ننگا کرتے ہوۓ باشعور نوجوانوں کے ہاتھ مضبوط کئے جائيں تاکہ گروہی و جماعتی نوسربازيوں ميں مگن بہروپيوں کو کھڈے لائن لگا کر رياستی وحدت اور قومی آزادی و خودمختاری کا کوئ سلسلہ بنايا جا سکے جو ايک مربوط تحريک کی صورت ميں عوامی حمائت ليتے ہوۓ دُنيا بھر کے محکوم عوام کے لئے ايک روشن مثال ہو۔