محکمہ تعلیم سے وابستہ ایک فرض شناس اور انتہاہی نفیس انسان بہترین معلم اور انسان دوست تعلیمی و سماجی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہنے والے میرے پیارے بلکے ہم سب کے پیارے امتیاز احمد خان (1964 – 2022)13 مئی 2022 کی صبح بوائز ہائی سکول چلندراٹ تحصیل دھیرکوٹ ضلع باغ میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے جاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گہے اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے! ذاتی سطح پر، وہ میرے بڑا بھائی تھے اور یہ وہ انسان تھے جنہوں نے مجھے میری بنیادی تعلیم کا بیشتر حصہ پڑھایا۔ انکے تدریس کے طریقے کار اختراعی تھے اور بطور معلم یہ انکا انداز تدریس ہی تھا جسکی بدولت ہم میں سے بہت سے لوگ آج اس مقام تک پہنچے جہاں ہم آج ہیں اور ایک کامیاب زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں محکمہ تعلیم کے لیے انکی خدمات کا ایک زمانہ محترف ہے انہوں نے دوران سروس اپنی زندگی بے شمار تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دہیں جن میں مڈل اسکول چلندرات، بوائز ہائی اسکول چلندرات، ارجہ ، غازی آباداور دیگر ریاستی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں انتہائی دیانتداری، لگن اور پوری محنت سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ آپ نے ہمیشہ طلباء کے مفاد کو اپنے ذاتی فائدے پر ترجہی دی، یہاں تک کہ اگرچہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے مگر اسکے باوجود انھوں نے اپنے فراہض جاری رکھے تاکہ آنے والے امتحانات میں ان کے طلباء کو نقصان نہ پہنچے۔ اس سطح کا عزم قابل رشک اور ڈھیروں تالیوں کا مستحق ہے شعبہ تعلیم سے وابستہ دیگر افراد بھی انکے اس کیریئر کی بہترین انداز میں پیروی کر سکتے ہیں۔ایک معروف استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم کمیونٹی لیڈر تھے۔ انہوں نے مقامی کمیونٹی کے متعدد منصوبوں میں اپنا اہم کردار ادا کیا، جس کے لیے وہ ہمیشہ اپنے حصے سے بہت زیادہ وقت اور محنت سے کردار ادا کرتے تھے اور اس حوالے سے انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خود کو وقف کر رکھا تھا -جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیاکہ یہ ایک وسیع برادری کے لیے ایک المناک نقصان اور قریبی خاندان کے لیے گہرا سانحہ ہے۔ ان کی موت ہمارے معاشرے میں ورک کلچر کے لیے آنکھ کھولنے والی ہے۔ کسی کو یہ سوال پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا ہمارا ورک کلچر وسیع تر محنت کش طبقے کو بیماری، خاندانی مسائل اور دیگر ذاتی مسائل کے لیے فوائد کا حقدار ہے؟ ایک بار جب لوگ شدید بیمار ہو جاتے ہیں، جیسے امتیاز بھاہی کو ڈیوٹی کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا، بہت عرصہ پہلے ہوا تھا – کیا ان لوگوں کو کام پر واپس لانے کے لیے خطرے کی تشخیص کا کوئی مناسب نظام موجود ہے؟ کیا انہیں صرف ان کی صحت کے حالات کو مدنظر رکھے بغیر کام پر واپس آنے کی اجازت دی جانی چاہئے؟ لیکن ہماری ریاست اس حوالے خاموش ہے اور یہ ہماری ورکنگ کلاس کے لیے انتہاہی تشویش ناک صورتحال ہے میں اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے سے فلحال قاصر ہوں شاید کسی اور وقت اس پر تبادلہ خیال ہو ہم نے اپنا ایک عظیم انسان اور بہترین اثاثے کو کھو دیا ہے۔ وہ ایک متاثر کن رہنما تھے، ذاتی سطح پر، کوئی ایسا شخص جس سے میں وسیع تر مسائل پر بات کر سکتا ہوں ان میں سے وہ ایک تھے۔ ان کی شائستگی کسی سے کم تر نہیں تھی اور دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے اور منصفانہ تنقید کا خیرمقدم کرتے تھے۔ ہم سب ان کی کمی محسوس کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ وہ غمزدہ خاندان کو اس سانحہ سے نمٹنے کی ہمت دے۔ آمین!رہنے کو صدا دہر میں آتا نہیں کوئیتم جیسے گہے. ایسے بھی جاتا نہیں کوئی