دنیا بھر میں آزای کی مختلف تحریکیں چلی ہیں۔ جن میں بہت سارے لوگ مزاحمت کی علامت بنے ہیں لیکن تحریک آزادی کشمیر وہ واحد تحریک ہے کہ جس نے ایسے مزاحمت کار جنم دیے ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں۔ انہی میں سے ایک یاسین ملک صاحب ہیں جنہوں نے زندگی بھر جدوجہد کی، کئی سال جیل کاٹی ، جب انکی مزاحمت کا مقابلہ ناممکن ہو گیا تو انہیں جھوٹ اور من گھڑت کیس کا ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔
بھارتی عدالت NIA نے یاسین ملک کو 20 سال پرانے بوگس اور فراڈ دہشتگردی فنڈنگ کیس میں فرد جرم عائد کی ہے جبکہ سزا کا تعین 25 مئی کو کیا جائے گا۔۔ غالب گمان ہے کہ یاسین ملک صاحب کو عمر قید کی سزا ہو جائے۔۔
یاسین ملک صاحب کی مزاحمت سے بھرپور زندگی کے متعلق جاننا ضروری ہے۔
کشمیری حریت پسند راہنما یاسین ملک 1966 میں سرینگر میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی بھارتی مظالم کا مشاہدہ کر رہے تھے۔سرینگر کی سڑکوں پر بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑا کرتی تھی ۔ آزادی کی جدوجہد اور مقبول بٹ کی حمایت میں احتجاج کرنے پر گرفتار ہوئے اور چار ماہ بعد 1986 میں رہا ہوئے ۔
1987 کے انتخابات میں خود تو حصہ نہیں لیا لیکن مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (MUF) کے امیدوار یوسف شاہ کی حمایت کی اور انتخابی مہم چلائی۔ یوسف شاہ جیت رہے تھے لیکن نیشنل کانفرنس نے دہاندلی کر کے اپنے امیدوار کو کامیاب کرایا ، ساتھ ہی یاسین ملک اور یوسف شاہ کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لیا۔۔
رہائی کے بعد اس پار یعنی آزاد کشمیر آ گئے اور مسلح ٹریننگ شروع کی۔ JKLF کے ساتھ وابستہ ہوئے ، مسلح ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد 1989 میں واپس سرینگر گئے جہاں اپنے حامیوں کا گروپ بنایا اور مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ اسی دوران اگست 1990 میں گرفتار ہوئے اور 1994 تک قید رہے۔ 1994 میں ضمانت پر رہا ہوئے۔ بعد ازاں مسلح جدوجہد کو ترک کر دیا اور آزادی کیلئے پرامن جدوجہد شروع کی۔ سہ فریقی مزاکرات پر بھی زور دیا ۔ 1995 کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور احتجاج کیا ۔ 1995 میں JKLF دو دھڑوں میں بٹ گئی اس سے پہلے یاسین ملک صاحب JKLFکے صدر تھے ۔۔
اکتوبر 1999 میں یاسین ملک صاحب کو بھارتی حکام نے پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت گرفتار کیا اور 26 مارچ 2002 کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ انکو تقریباً ایک سال تک حراست میں رکھا گیا۔
2007 میں مختلف عالمی رہنماؤں و مبصرین کے ساتھ ملاقاتیں کیں، مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ کشمیر بھر میں عوام کو بیدار کرانے کی کوشش کی۔ انکو بھارتی مظالم کے خلاف صف آراء ہونے کیلئے تیار کیا۔
مارچ 2020 میں، یاسین ملک اور چھ ساتھیوں پر 25 جنوری 1990 کو راولپورہ، سری نگر میں ہندوستانی فضائیہ کے 40 اہلکاروں پر حملے کے لیے دہشت گردی اور روک تھام ایکٹ (TADA)، آرمز ایکٹ 1959 اور رنبیر پینل کوڈ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔
2017 میں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے مختلف علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی فنڈنگ کا مقدمہ درج کیا، اور 2019 میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں یاسین ملک اور دیگر چار افراد کو نامزد کیا۔
اس کیس کی سماعت کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی کیس کی 10 مئی کو ہونے والی سماعت میں یاسین ملک صاحب نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو justify کرنے سے انکار کر دیا ۔
19 مئی کی سماعت میں انہیں مجرم قرار دے دیا گیا ۔۔ اب 25 مئی کو غالب گمان ہے کہ انہیں سزا سنائی جائے۔
اس ساری جدوجہد میں یاسین ملک صاحب نے کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کئی سال تک تہاڑ جیل میں بھی قید رہے۔اس مرد مجاہد پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتا رہا۔ طرح طرح کی تکالیف دی گئی لیکن جان کی پرواہ کیے بغیر انجام سے بے پرواہ مزاحمت کا علمبردار بنا رہا ۔ تحریک آزادی کشمیر کیلئے لازوال جدوجہد کی ۔
اس سب کے باوجود دنیا کا دوہرا معیار سب کے سامنے ہے اگر مغرب میں کوئی ریاست اپنی آزادی کی بات کرے ، وہاں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے
لیکن ہاں اگر کہیں مسلمان آزادی کا مطالبہ کریں تو انکی کی بات ہی نہیں سننی اور انکے لیڈر جتنی قربانیاں دے دیں انکا نام بھی ظاہر نہیں ہونے دینا حتیٰ کہ انکے کیلئے آواز بلند کرنے پر اکاؤنٹس بھی بلاک کر دو۔۔ یہ ہے نام نہاد آزادی پسندوں ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کا دوہرا معیار جو دعویٰ تو سب کو حقوق دینے کا کرتے ہیں لیکن جدوجہد مخصوص طبقے کیلئے کرتے ہیں
ان سب قوتوں کیلئے
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں