آزاد کشمیر کی سیاست اول روز سے ہی پاکستان میں سیاسی حالات اور شخصیات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان ،رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس، کے ایچ خورشید، مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات خان جیسی نامور اور نابغہ روزگار شخصیات کی سیاست بھی پاکستانی حالات اور واقعات سے جڑی رہی اور ان قدآور شخصیات نے اپنی سیاسی بصیرت سے پاکستانی سیاست میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ سواد اعظم جماعت مسلم کانفرنس طویل عرصہ تک آزاد کشمیرکی واحد سیاسی جماعت کے طور پر سرگرم عمل رہی اور اس دوران اس واحد سیاسی جماعت کی قیادت کسی بھی ایک مخصوص خاندان، برادری یا علاقہ کے پاس نہیں رہی اور رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس،غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان، راجہ حیدر خان، سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان سمیت مختلف ادوار میں مختلف قدآور سیاسی شخصیات نے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر اس جماعت کی قیادت کی اور آزاد کشمیر بھر سے لوگ بلاتخصیص کنبہ و قبیلہ اس جماعت کا حصہ رہے جس وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک مسلم کانفرنس نا قابل شکست سیاسی جماعت رہی۔ 70ءکی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مسلم کانفرنس کی نا قابل شکست سیاست کوچیلنج کرنا شروع کیا تومسلم کانفرنسی قیادت کی اندرونی چقلش اور اختلافات بھی کھل کر سامنے آنے لگے اور اختیارات کی اس جنگ میں پہلی بار80کی دہائی میں آزاد کشمیر کی سیاست میں برادری ازم کی لعنت سامنے آئی جس کے اثرات خاصے طویل رہے بہت سی قدآور شخصیات اور چھوٹے قبیلے اس برادری ازم کی سیاست کی بھینٹ چڑھے۔ 80ءکی دہائی میں جب مسلم کانفرنس کی صفوں میں اختلاف نے جنم لیا تو اس وقت جماعتی باگ ڈور سردار محمد عبدالقیوم خان اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان جیسی قد آورشخصیات نے سنبھال رکھی تھی اختلافات کی شدت کے باوجود دونوں شخصیات نے اپنے سیاسی تدبر اور حکمت عملی سے نہ صرف جماعت کو متحد اور منظم رکھا بلکہ اپوزیشن اتحاد کو شکست دے کر آزاد کشمیر میں اپنی سیاست کا لوہا منوایا۔سردار محمد عبدالقیوم خان کا تعلق آزاد کشمیر بھر میں صرف ایک حلقہ میں ووٹ بینک کی حامل عباسی برادری سے تھا جبکہ دوسری طرف سردار سکند رحیات خان کا تعلق راجپوت برادری سے تھا جس کا شمار آزاد کشمیر کے بڑے قبائل میں ہوتا ہے۔ مسلم کانفرنس میں راجپوت قبیلہ ہمیشہ اکثریتی برادری کے طور پرموجود رہا اور جب بھی مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی چاہے اس کی قیادت کسی کے پاس رہی ہو سردار سکندر حیات خان کی سرپرستی میں اس قبیلہ سے درجن بھر سے زائد حلقوں سے راجپوت قبیلہ کے لوگ اسمبلی میں پہنچتے رہے اور یہ سلسلہ 2006کے انتخابات تک بخوبی چلتا رہا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سردار محمد عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان پیرانہ سالی کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوئے تو سردار عتیق احمد خان سردار عبدالقیوم خان اور راجہ محمد فاروق حیدر خان سردار سکندر حیات خان کے جانشین کے طور پر سامنے آئے۔ 2006کے عام انتخابات میںدونوں قدآور شخصیات سردار محمد عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان اسمبلی سے باہر تھیں اور سردار عتیق احمد خان اور راجہ محمد فاروق حید رخان کے درمیان اختلافات اور باہمی چقلش اس حدتک بڑھ گئی کہ پانچ سال میں تین وزراءاعظم تبدیل ہوئے اور بالآخر مسلم کانفرنس کا ایک دھڑا مسلم لیگ(ن) میں ضم ہوا اور قائد پاکستان مسلم لیگ(ن) محمد نواز شریف نے سردار سکندر حیات خان اور راجہ محمد فاروق حید رخان کے اصرار پر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی بنیاد رکھی۔ 2010ءمیں مسلم لیگ(ن) کا آزاد کشمیر میں باضابطہ قیام عمل میں آیا اور راجہ محمد فاروق حید رخان سردار سکندر حیات خان کے جانشین کے طور پر پارٹی کے چیف آرگنائزر اور بعد ازاں صدر منتخب ہوئے۔سردار سکندر حیات خان کی ایما پر آزاد کشمیر بھر سے راجپوت برادری مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوئی اور دیگر قبائل کے ہمراہ قائد پاکستان میاں محمد نواز شریف کی قیادت پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔2011ءکے انتخابات میںجب آزاد کشمیر میں پارٹی کے قیام کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نے آزاد کشمیر اور مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان سے11نشستیں حاصل کیں جس میں راجپوت قبیلہ سے تین لوگ ممبر اسمبلی بنے۔ مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دوران آزاد کشمیر میں2016ء کے عام انتخابات منعقد ہوئے اور مسلم لیگ(ن) نے آزاد کشمیر اور مہاجرین جموں وکشمیرمقیم پاکستان سے 32نشستیں حاصل کیں( جن میں صرف8ممبران اسمبلی کا تعلق راجپوت سے تھا) اور راجہ محمد فاروق حید رخان آزاد کشمیر کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ راجہ محمد فاروق حیدر خان کے دور حکومت میں بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے گئے جس میں 13ترمیم، این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن میں اصلاحات شامل ہیں لیکن یہ پانچ سالہ دور بحیثیت سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) اور بالخصوص نظریاتی کارکنوں اور میاں محمد نواز شریف کے چاہنے والوں کیلئے کسی قہر سے کم نہ تھا۔ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں اقتدار مسلم لیگی کارکنوں سے کوسوں دُور تھا پانچ سالوں میں وزیراعظم ہاؤس میں غیر متعلقہ لوگوں کو خاص اہمیت حاصل تھی وزراءحکومت اور ممبران اسمبلی وزیراعظم کی منظور نظربیورو کریسی کے ہاتھوں تذلیل ہوتی رہی اورپانچ سال دیگر جماعتی سینئرز وزیراعظم کے آمرانہ رویے سے شدید نالاں اور شاکی رہے۔راجہ محمد فاروق حیدر خان نے اپنے دور اقتدار میں جماعتی معاملات کو مکمل طور پر پس پشت ڈالے رکھا اور ان پانچ سالوں میں بطور صدر جماعت کوئی ایک بھی باضابطہ جماعتی اجلاس طلب نہ کیا راجہ محمد فاروق حیدر خان کے اس رویے کی وجہ سے آزاد کشمیر بھر میں جماعت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا اور نظریاتی کارکن مایوس اور بد دل ہو کر گھروں میں جا بیٹھے۔ سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان نے جماعت کے سینئر قائدین اور کارکنوں کی شکایات پر اصلاح احوال کی کئی کوششیں کیں لیکن راجہ محمد فاروق حیدر خان نے تمام انتخابی حلقوں میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائے رکھی اور خود سردار سکندر حیات ان کے لاابالی اور آمرانہ رویے کے سامنے بے بس نظر آئے ۔ راجہ محمد فاروق حیدر خان نے حکومتی اور جماعتی معاملات میں سردار سکندر حیات خان جیسے محسن کی تذلیل کی جس کی وجہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کے نظریاتی کارکنوں اور بالخصوص راجپوت برادری کے زعماءمیں شدید بے چینی، ناراضگی اور بد دلی پھیلتی گئی اوربالآخر سردار سکندر حیات خان مسلم لیگ(ن)سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گئے نتیجتاً2021کے عام انتخابات مسلم لیگ(ن) کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا,اسمبلی فلور پر 38نشستوں کی حامل جماعت 7نشستوں پر محدود ہو کر رہ گئی اور آزاد کشمیر بھر سے راجہ محمد فاروق حیدر خان کی نشست کے علاوہ راجپوت قبیلہ مکمل طور پر آزاد کشمیر کی سیاست سے باہر ہو گیا۔ بھمبر سے لے کر نیلم تاؤبٹ تک راجپوت قبیلہ راجہ محمد فاروق حیدر خان کے غرور گھمنڈ اور سازشی نظریات کا شکار ہوا لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر کے عوام اور مہاجرین جموں وکشمیر نے گذشتہ انتخابات میں محمد نواز شریف کے نام پر ساڑھے 5لاکھ سے زائد ووٹ مسلم لیگ(ن) کو دئیے۔اس الیکشن میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کی مداخلت سے زیادہ جماعتی صفوں میں انتشار مسلم لیگ(ن) کی عبرتناک شکست کی وجہ بنی اور راجہ محمد فاروق حیدر خان کو کارکنوں سے دُوری کا خمیازہ جماعتی صدارت سے محرومی کی شکل میں اٹھانا پڑا۔ آزاد کشمیر کے گذشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی شکست کا اجمالی جائزہ کچھ یوں ہے کہ ضلع میرپور کے راجپوت اکثریتی حلقوں میں حلقہ ڈڈیال میں سابق وزیر حکومت چوہدری مسعود خالد جماعتی ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن راجہ شعیب عابد جن کا شمار راجہ محمد فاروق حیدر خان کے عزیزوں میں ہوتا ہے نے پانچ سال حکومت سے مستفید ہونے کے باوجود بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔چکسواری میں محمد نذیر انقلابی جماعتی ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن چوہدری عظیم بخش اور سہیل سرفراز نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔ کھڑی میں سابق وزیرحکومت چوہدری رخسار احمد راجپوت قبیلہ سے مکمل طور پر شاکی نظر آئے۔ ضلع بھمبر کے حلقہ بھمبر شہر جو مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر چوہدری طارق فاروق کا حلقہ ہے اس حلقہ میں راجپوت برادری کا خاصہ ووٹ بینک ہے راجہ محمدفاروق حید رخان نے چوہدری طارق فاروق کا راستہ روکنے کیلئے راجپوت برادری کو ان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔۔حلقہ سماہنی میں راجپوت قبیلہ مکمل نفاق اور تقسیم شکار رہا راجہ مقصود جماعتی ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن راجہ عدنان رزاق، رزاق کشمیری،راجہ خوشنود اعظم نے جماعتی ٹکٹ ہولڈر کی مخالفت کی۔ضلع کوٹلی کے حلقہ نکیال میں سردار سکندر حیات خان کے خاندان کو جس طر ح ذلیل کر پارٹی سے نکالا گیا وہاں تو مسلم لیگ (ن) کا نام و نشان مٹ گیا اور راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کریلوی خاندان کو سبق سکھانے کیلئے سردار نعیم کے مقابلے میں ان کے قریبی عزیز سردار منیر کو مشیر حکومت بنایا سرکاری فنڈز جاری کیے جماعتی ٹکٹ دیا الیکشن میں سردار منیر نے1500ووٹ حاصل کیے۔ کوٹلی شہر میں زبیر اقبال کیانی کو ٹکٹ جاری کیا گیا لیکن چوہدری رحمان آرائیں، شکیل محمود، لیاقت مغل ایڈووکیٹ نے اختلافات کے باعث بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا ۔ حلقہ سہنسہ میں سابق وزیرحکومت راجہ نصیر احمد خان کی کنفرم نشست راجپوت قبیلہ کی تقسیم کی نذر ہوئی اور راجہ نصیر احمد خان کو زندگی میں پہلی مرتبہ شکست کا سامنا کر نا پڑا۔حلقہ چڑہوئی میں جماعتی ٹکٹ ہولڈر راجہ ریاست خان اور سابق ٹکٹ ہولڈر راجہ محمد اقبال خان کے اختلافات کو ختم نہ کیا جا سکابلکہ ضمنی الیکشن میں چوہدری محمد یٰسین کے بیٹے کی کامیابی راجہ محمد فاروق حیدر خان کے کردارپر بہت سے سوالات چھوڑ گئی۔کھوئیرٹہ میں سابق وزیر حکومت کے صاحبزادے ایاز نثار جماعتی ٹکٹ ہولڈر تھے وہ بھی راجپوت برادری کی تقسیم کا شکار ہوئے اور ایک بڑے دھڑے نے راجہ شاداب سکندر کا ساتھ دیا اورجماعتی ٹکٹ ہولڈر نے سابق حلقہ صدر راجہ عقیل احمد کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ۔ضلع باغ کے حلقہ دھیرکوٹ میں راجہ محمد فاروق حیدر خان کی طرف سے کھیلے جانے والا مکروہ کھیل کسی سے پوشیدہ نہیں پانچ سال پارٹی کو تقسیم کرکے ٹکٹ ہولڈر راجہ افتخار ایوب کو دیوار سے لگائے رکھا اور پھر الیکشن میں سردار عتیق احمد خان کو راستہ دینے کیلئے محمد نواز شریف کے دستخط سے جاری راجہ افتخار ایوب کا ٹکٹ تبدیل کر دیا گیا جس کی وجہ سے کارکنوں میں بد دلی پھیلی اور جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔حلقہ وسطی باغ میں محمد نواز شریف کے منظور نظر مشتاق منہاس کا راستہ روکنے کیلئے راجپوت برادری میں بغاوت کو ہوا دی گئی۔ حلقہ شرقی باغ سے سردار میر اکبر پانچ سال کے دور حکومت میں ضلع باغ کے انچارج منسٹر رہے اور الیکشن میں وہ جماعتی ٹکٹ سمیت تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور جماعت کو اس حلقہ میں مناسب ٹکٹ ہولڈر بھی دستیاب نہ ہوا۔ مظفر آباد کے حلقہ کوٹلہ میں راجہ محمد فاروق حیدر خان نے ذاتی اختلافات کے باعث پانچ سال وزیر حکومت نورین عارف کو دیوار کیساتھ لگا کر مخالف قوتوں کو مضبوط کیا ۔حلقہ کھاوڑہ میں چوہدری لطیف اکبر کو سیاسی فائدہ پہنچانے کیلئے سابق وزیرحکومت راجہ عبدالقیوم خان کیخلاف گروپنگ کروائی گئی اور بالآخر ایک غیر معروف منظور نظر شخص کو جماعتی ٹکٹ سے نوازا گیا۔مظفر آباد حلقہ شہر میں وزیر حکومت بیرسٹر افتخارگیلانی جماعتی ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن پانچ سالہ دور اقتدار میں ان کے مخالفین کو نوازا جاتا رہا۔ حلقہ لچھراٹ سے وزیر حکومت چوہدری شہزاد راجہ محمد فاروق حیدر خان کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر جماعتی ٹکٹ سمیت تحریک انصاف کو پیارے ہوئے گئے۔ یہ ایک لمبی تفصیل ہے لیکن اختصار کیساتھ اس لیے لکھنا ضروری سمجھا تاکہ آزاد خطہ کے عوام، جماعتی کارکنوں اور مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت حقائق سے آگاہ ہو سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں برادریوں کا کردار تو ضرور رہا ہے لیکن سیاست برادریوں کی محتاج کبھی نہیں رہی چوہدری غلام عباس، کے ایچ خورشید، پیر علی جہان شاہ اور سردار محمد عبدالقیوم خان جیسی قد آور شخصیات نے آزاد کشمیر کے اکثریتی قبائل سے تعلق نہ ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں اپنی سیاست کا لوہا منوایا۔بالخصوص آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قیام کے بعد برادری ازم کی سیاست تقریباً دم توڑ چکی ہے اب لوگ مسائل کے حل اور تعمیر وترقی کے پیش نظر مرکزی جماعتوں اور ان کی قیادت کیساتھ وابستگی رکھتے ہیں اور مرکزی جماعتوں کی قیادت کی حمایت کے بغیر الیکشن میں کامیابی نا ممکن ہے جیسا کہ2011 کے الیکشن میں سردار سکندر حیات خان کے خاندان کو اپنی آبائی نشست سے محروم ہونا پڑا۔چکار سے راجہ محمد فاروق حیدر خان صاحبزادہ اسحاق ظفر کے مقابلے میں ہمیشہ ہارتے رہے لیکن جب مسلم لیگ(ن) کے قائد نے ان پر دست شفقت رکھا تو اس حلقہ میں راجپوت برادری کے چند سو ووٹ کے باوجود وہ بھاری اکثریتی سے کامیاب ہوئے، 2016کے الیکشن میں جاٹ قبیلے کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود کو مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ ہولڈر چوہدری سعید کے ہاتھوں شکست کا مزا چکھنا پڑا۔ گجر برادری کے چوہدری رخسار احمد جن کا حلقہ کھڑی میں 1500 سے زیادہ برادری کا ووٹ بینک نہیں لیکن انہوں نے متعدد بار بیرسٹر سلطان محمود کے خاندان کو شکست دی۔اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کو حوالے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کے بڑے قبیلوں سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی شخصیات اپنے سیاسی فائدے کیلئے قبیلہ کو ڈھال کے طور پر استعمال توضرور کرتی ہیں لیکن ان کی اپنی سیاست مرکزی جماعتوں کی لیڈر شپ اور ان کے دیے جانے والے ٹکٹ کی مرہون منت ہے اور مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف ہیں خود راجہ فاروق حیدر خان کے پاس اگر محمد نواز شریف کا ٹکٹ نہ ہو تو وہ اپنے حلقہ سے سیٹ نہیں نکال سکتے۔ قصہ مختصر کہ آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست میں لیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مقابلے میں اکثریتی برادری کا نمائندہ ہونے کے باوجود الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ اور جماعتی صفوں اتفاق و اتحاد کامیابی کے ضمانت ہے برادری معنی نہیں رکھتی اس لیے نورین عارف، راجہ عبدالقیوم خان ،راجہ افتخار ایوب خان، مشتاق منہاس، سردار فاروق سکندر،راجہ نصیر ، راجہ نثار، راجہ ریاست، راجہ مقصود سمیت آزاد کشمیر کی راجپوت برادری کے تمام اکابرین جماعتی قیادت کے فیصلوں کیساتھ کھڑے ہیں اور اسی میں ان کی سیاسی بقا ہے جس نے بغاوت کی وہ چوہدری نثار بن گیا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف ہیں وہ جس کو چاہیں آزاد کشمیر میں جماعت کی صدارت سونپ دیں مسلم کانفرنس کی طرح انتشار پھیلانے کی اجازت مسلم لیگ(ن) میں کسی کو حاصل نہیں بھمبر سے تاؤ بٹ تک لیگی کارکنان محمد نواز شریف کی پشت پر کھڑے ہیں۔