جموں کشمیر حد بندی کمیشن اور کشمیری سیاستدان

تحریر! ملک عبدالحکیم کشمیری

پانچ اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کردیا ۔ 2019 سے قبل جموں کشمیر اسمبلی کی 87 نشستیں تھیں ،لداخ کی علیحدگی کے بعد نشستوں کی تعداد 83 رہ گئی ۔مارچ 2020 میں ہندوستان نے لوک سبھا (ایوان زیریں) میں جموں کشمیر کی نمائندگی کے لیے سابق جسٹس بھارتی سپریم کورٹ رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں حد بندی کمیشن (delimitition commission) تشکیل دیا ۔ کمیشن نے 6 مئی 2022 کو اپنی سفارشات پیش کیں۔سفارشات کے مطابق جموں کشمیر اسمبلی میں جموں ریجن کے لیے 6 مزید نشستوں اور کشمیر ریجن کے لیے صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ۔ کمیشن نے جموں کشمیر اسمبلی کے اراکین کی تعداد 90 تک بڑھانے وادی کشمیر سے ہجرت کرنے والے پنڈتوں شیڈولڈ کاسٹ اور گوجر قبائل کے لیے 16 مخصوص نشستیں رکھنے کے سفارش کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر کے علاقوں کی نمائندگی کے لئے حکومت ہند کو ممکنہ اختیار دیا ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ کے لوک سبھا (ایوان زیریں) کے لیے جموں کشمیر اسمبلی کے 18 انتخابی حلقوں پر مشتمل ایک حلقہ تشکیل دیا گیا۔یوں لوک سبھا میں جموں کشمیر کی پانچ نشستیں ہوں گی۔ کمیشن کی سفارشات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔حدبندی کمیشن کی سفارشات پر ہندوستان نواز وادی کے مسلمان کشمیری سیاست دانوں نے برائے نام تحفظات کا اظہار کیا گلگت بلتستان میں مکمل خاموشی رہی جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں بیانات پر گزارا کیا گیا۔معاملہ ہے کیا ؟جموں کشمیر اسمبلی میں جموں ریجن کی اس سے قبل 37 نشستیں تھیں جبکہ کشمیر ریجن کی چھیالیس کمیشن نے اپنی سفارشات میں جموں کو 6 اور کشمیر کو ایک نشست دینے کی تجویز دی اس طرح ہندو اکثریت کا حامل جموں ریجن جس کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل کشمیر سے 15 لاکھ کم ہے اسمبلی میں براہ راست 43 نشستوں کے ساتھ نمائندگی کرے گا ۔ڈیڑہ لاکھ کی آبادی پر اگر ایک انتخابی حلقے کا معیار رکھا جائے تو مسلم اکثریت پر مشتمل کشمیر ریجن کی جموں سے 10 نشستیں زیادہ ہونی چاہیے لیکن کمیشن نے انتہائی مہارت سے بی جے پی کے مشن کو آگے بڑھایا۔کمیشن کی سفارشات کو اگر دیکھا جائے 1990 کی جنگ کے بعد کشمیر ریجن سے جموں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لئے جو دو نشستیں رکھنے کی سفارش کی گئی اس کا وزن بھی کشمیری مسلمانوں کے خلاف جائے گا۔ گوجر قبائل کے لیے جو نشستیں رکھی گئیں اس میں سے پانچ جموں کے گوجر قبائل کی ہیں اور دلتوں کے لیے مخصوص نشست بھی جموں کے کھاتے میں جائے گی یوں جموں ریجن کو کشمیر کی مسلم اکثریت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور مستقبل میں بی جے پی جموں کشمیر میں اپنی حکومت قائم کرنے کے ایجنڈے پر کامیاب ہو جائے گی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا حد بندی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں جموں کشمیر مسلمان اکثریت کے باوجود سیاسی طور پر بے اختیار ہو جائیں گے ۔اس کے علاوہ جموں کے پونچھ، راجوری، رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ اضلاع میں پچاس فیصد یا اس سے زیادہ مسلم آبادی کو قانون ساز اسمبلی میں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی۔ اس سارے عمل میں منقسم جموں کشمیر کی لیڈرشپ اور مسئلہ کشمیر کے ٹھیکدار خانہ پری کے لیے محض بیانات تک محدود ہیں ۔بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی لیڈرشپ کے قوت مزاحمت شاید مفادات کی خاطر دم توڑ چکی ہے لیکن وہ سیاستدان ہیں جن کے اقتدار کا دستر خوان مسئلہ کشمیر کی ڈش کے بغیر نامکمل ہوتا تھا وہ خاموش کیوں ہیں ؟ آج سردار عتیق ،فاروق حیدر، سلطان محمود، چوہدری لطیف اکبر ،چوہدری مجید ، راجہ ذوالقرنین ، سردار انور خان ،سلطان محمود کہاں ہیں ؟ ارب پتی جہادیوں کی زبانوں پر کس نے ایلفی ڈال دی ۔حکم خاکی کے سامنے سجدہ ریز یہ کلاس جو کل الجہاد الجہاد کے نعرے لگاتی تھی نسل نو کو کیا جواب دے گی۔؟ کیا وکیل اور اس کے ایجنٹوں کے پاس کوئی دلیل ہے ؟میرا خیال ہے نہیں ۔۔۔ کیوں کہ وکیل اور اس کے ایجنٹوں نے مسلم اکثریت کو پراکسی وار کے طور پر استعمال کیا آج ہندوستان اسی مسلم اکثریت کو بے اختیار کرکے جموں کشمیر کے ہندوؤں کو استعمال کرنے کے راستے پر چل پڑا ہے۔آنے والے وقت میں اگر بھارتیہ جنتا پارٹی جموں کشمیر میں حکومت بنا کر پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی واپسی کا مطالبہ کرے تو کیا ہو گآ؟ ماضی میں ہم جب کہتے تھے کہ یوں مذہبی کارڈ نہ کھیلو تو ہمیں غدار کہا جاتا تھا آج وہ سارے پردھان جو ہمیں انڈین ایجینٹ کہتے تھے ان کے ہونٹوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔اگر یہ جموں کشمیر کے لوگوں کی تحریک رہتی تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا ۔اب بھی وقت ہے ہندوستان کے تمام تر اقدامات کا جواب ایک فیصلے میں ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر مشتمل حکومتوں کو یکجا کر کے تسلیم کیا جائے ۔پاکستان کے اربابِ اختیار اہل جموں کشمیر پر اعتبار کریں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ سری نگر کی آزادی مظفرآباد کو بااختیار بنانے سے مشروط ہے۔

Comments (0)
Add Comment