تحریر :ڈاکٹر ضمیر اختر خان
تنظیم اسلامی کے قیام کا مقصد اولاً پاکستان میں اور بالآخر ساری دنیا میں دین حق یعنی اسلام کو غالب کرنے یا بالفاظ دیگر نظام خلافت کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ یہ جدوجہد نبوی منہاج کے مطابق کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کی رفتار بہت آہستہ ہے مگر دھیرے دھیرے یہ جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی جدوجہد کا ایک پہلو قرآنی حکم "نہی عن المنکر ” پر عمل کرتے ہوئے،منکرات کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس سلسلے میں تنظیم اسلامی وقتاً فوقتاً "آگہی منکرات” کے عنوان سے مہمات کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔اس کا مقصد عوام وخواص کو خبردار کرنا ہوتا ہے تاکہ وه ان منکرات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کوبچانے کی کوشش کریں۔ یوں تو اس وقت پاکستان میں بہت سے منکرات پھیلے ہوئے ہیں۔مثلاًعریانی و فحاشی ہے، بے حیائی و بے شرمی ہے، ہندوانہ و مشرکانہ خوشی و غمی کی رسومات ہیں، بداخلاقی و بے ایمانی ہے، شعائر دینی کی بے حرمتی ہے، قرآن و سنت کے منافی افکار وخیالات کی یلغار ہے، سماجی و معاشرتی بہت سی خرابیاں ہیں اور سیاسی سطح پر جو کچھ ہو رہاہے وه ساری دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث ہے اور معاشی بدحالی کی ہم انتہا پر ہیں۔ غرض کیا کچھ نہیں ہے۔ ان میں سے ایک ایک منکرکو ختم کرنا تنظیم اسلامی کے پیش نظر ہے مگر فوری طور ملکی سطح پر حکومتی سرپرستی میں رائج بہت بڑا منکر معاشی ام الخبائث "سود(ربا)” ہے جس کے خلاف فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تنظیم اسلامی اس کے خاتمے کے لیے ایک عرصے سے کوشاں ہے۔ بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمۃ الله علیہ یوں تو ہر برائی کے خلاف بلا خوف لومۃ لائم بولتے تھے۔ شادی بیاه کی رسومات ہوں یا
شرک و بدعات کی خرفات ، عریانی و فحاشی ہو یا لھو ولعب ہر ایک پر وار کرتے تھے۔ یہ انہی کا جگر گرده تھا کہ کرکٹ جیسے مقبول عام مگر لایعنی کھیل کو بھی انہوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ببانگ دہل جنرل ضیاء الحق صاحب کے سامنے کہا تھا کہ سارا سارا دن نمازوں اور کاروبار سے غافل کرنے والے اس کھیل پر وقت کی قید لگائی جائے اور جمعہ کے دن تو میچ ہر گز نہ
رکھے جائیں۔ سود جیسی برائی کے خلاف تو ان کا لب ولہجہ بہت ہی کاٹ دار ہوتا تھا۔
دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم نے بھی سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب سے ہی
سود کی شناعت کے حوالے سے لرزا دینے والی حدیث مبارک سنی تھی۔ وه اس حدیث کو شد ومد سے پیش کرتے تھے،جس میں سود کے ستر سے زائد درجوں کا ذکر ہے ،جن میں ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے۔ انہوں نے قرآن و حدیث کے ساتھ علامہ اقبال کے سود کی قباحت اور خرابی کے حوالے سے اشعار کو بھی خوب بیان کیا اور پھیلایا۔ اس سلسلے میں ان کے جانشین اور سابقہ امیر تنظیم محترم حافظ عاکف سعید حفظہ الله نے بھی اہم کردارادا کیا۔ انہوں نے ایک ملک گیر مہم بھی چلائی تھی جس کی صدا ملک کے طول وعرض میں سنی گئی تھی۔ شنید ہے کہ نوجواں علماء نے اپنے بزرگ علماء(اساتذه) سے پوچھنا شروع کردیا تھا کہ وه کب اس طرح کی مہم لے کر اٹھیں گے۔ حافظ صاحب کے دور امارت میں ہی 2015ء میں ایک درخواست آئین پاکستان کی دفعہ 38)ایف) کے تحت سپریم کورٹ میں پیش کی گئی تھی ،جسے اعتراض لگا کر مسترد کر دیا گیا تھا۔ ایک اور کوشش بھی ہوئی جس کو دو ججز جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سرمد جلال عثمانی نے سرسری سماعت کے بعد ختم کر دیا۔ یہ کوششیں عدالتی رکاوٹوں کے باوجود
جاری رہیں ۔ اس ضمن میں تنظیم اسلامی کے ایک سینئر رفیق اور انجمن خدام القرآن کے تحت قائم ریسرچ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر حافظ عاطف وحید فرزند ارجمند ڈاکٹر اسرار احمد کا کردار بھی بہت نمایاں ہے ۔ انہوں نے ایک طرف مختلف وکلاء اور ماہرین سے رابطہ کر کے شریعت کورٹ کی
بھرپور معاونت کی اور عدالت کو موقع فراہم کیا کہ وه زیرالتوا سودی مقدمہ کی سماعت کا آغاز کرے۔ مزید براں وفاقی شرعی عدالت سے موصولہ 14 سوالات کے قرآن و سنت کی روشنی میں جوابات بروقت مہیا کرنا ڈاکٹر عاطف کا وه قابل قدر کام ہے کہ جس نے شرعی عدالت کے کام کو بہت آسان کردیا ۔ انہوں نے اس محنت کو کتابی شکل میں ترتیب دے دیا ہے اور اب یہ کتاب بعنوان” انسداد سود کا مقدمہ اور وفاقی شرعی عدالت کے 14 سوال” مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہے۔ مسئلہ سود کو سمجھنے کے لیے اور پاکستان میں انسداد سود کی پوری تاریخ سے آگاہی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ ان شاء الله۔انسداد سود کے حوالے سے دیگر جماعتوں نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے جن میں جماعت اسلامی قابل ذکر ہے۔ تنظیم اسلامی کی مساعی کا اعتراف جماعت کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بھی ہوا ہے اور اس کا ایک حوصلہ افزا اور خوش آہند پہلو جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب کا وه بیان ہے جو شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک کے زیر سرپرستی سودی بینکوں کی پٹیشن کے حوالے سے تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے حالات حاضره کے منفرد پروگرام "زمانہ گواه ہے” میں بڑے واشگاف الفاظ میں سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ” تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کو مل کر اقامت دین اور خلافت کے نظام کے لیے اب فیصلہ کن لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے”( ہفت روزه ندائے خلافت، لاہور،شماره 27 بمطابق 19 تا 25 جولائی 2022ء)۔ اس بیان سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر پاکستان میں ایک قدم بھی اسلام کے نفاذ کی طرف مشکل سے اٹھایا جا سکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی صف اول کے ایک اہم رہنما کا یہ بیان بہت ہی برمحل ہے۔ اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو مل بیٹھ کر کوئی قابل عمل سٹریٹجی تیار کرنی چاہیے۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ الله کی یہ خواہش تھی کہ تنظیم اسلامی، جماعت اسلامی اور تحریک
اسلامی پر مشتمل ایک وفاق قائم کیا جائے تاکہ فوری نوعیت کے معاملات پر مل کر کام کیا
جائے۔ ان کی یہ آرزو کتابچے کی صورت میں طبع بھی ہو چکی ہے۔حکومت پاکستان نے شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے کے تناظر میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جس میں ملک کے نامور علماء کو بھی شامل کیا گیا ہے مگر تا حال بینکوں کو اپیل واپس لینے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس طرز عمل سے حکومت کی نیت میں فتور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لہذا تنظیم اسلامی ایک بار پھر ملک گیر "انسداد سود مہم ” کا آغاز کر رہی ہے جس کی ابتدا 19 اگست 22 ء سے ہوگی۔ان شاء الله۔ ہماری عوام وخواص سے درخواست ہے کہ وه بھی آواز اٹھائیں اور اپنی اپنی سطح پر بھرپور احتجاج کریں تاکہ حکومت الله تعالیٰ کے حکم اور ملکی آئین وقانون کی خلاف ورزی سے باز آجائے اور اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملک کو سود جیسی خباثت سے پاک کرے۔