تحریر:غضنفر علی
کشمیر میں 8 اکتوبر 2005 مقامی وقت 8:52 ایک بیانک صبح جس نے 7.6 کی شدت سے خطہ کشمیر اور گرد و جوار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان میں آنے والا 2005 کا زلزلہ تاریخ کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا،جس میں کہیں بچے یتیم ہوۓ ،کہیں عورتیں بیوہ ہوٸیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوۓ۔
یہ کشمیر اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس نے کشمیر کے تین اضلاع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔کہیں روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر 978 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گۓ۔اس زلزلے میں تقریباً 70 ہزار سے ذاٸد افراد ہلاک ہوۓ جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب زخمی ہوۓ۔ایک اندازے کے مطابق زلزلے سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد3.5ملین تھی۔زلزلے میں 19 ہزار بچے فوت ہوۓ جن کی اموات ذیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گرنے سے ہوٸیں۔تقریباً اڑھاٸ لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوۓ۔ غرض یہ کہ زلزلہ ذدہ علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
درد ناک مناظر آج بھی آنکھوں میں سماۓ ہوۓ ہیں ،ہر طرف خون کی ندیاں ،چیخ و پکار اور شاید اگلے لمحے اپنی ہی موت کا خوف ، بار بار زمین کا تھر تھرانا چھوٹی سے جان میں زندگی کے آخری لمحات کا تصور تھا، ہر انسان کی زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہو جاتا۔
اور ہر طرف سے بری خبریں اپنے پیاروں اور دوستوں کے بچھڑنے کا غم اذیت ناک تھا۔
شمالی علاقہ جات میں شدید سردی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں کا جینا اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔کشمیر کے دیگر علاقوں ،پاکستان ،تارکینِ وطن پاکستانیوں و کشمیریوں اور عالمی برادری نے اس زلزلے پر فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوۓ کارواٸیاں شروع کیں اور زلزلہ ذدہ علاقوں میں لوگوں میں ٹینٹ ، خوراک ، گرم کپڑے ، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو پہچانے کے لیے فی الفور اقدامات اٹھاۓ گۓ۔ ان کارواٸیوں میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان کی بہادر افواج کا تھا جنہوں نے 24 گھنٹے کام کر کے اپنے متاثرہ ہم وطنوں کی مدد کی۔
گری پڑی عمارتیں ، ٹوٹے ہوۓ پُل ، لینڈ سلاٸیڈنگ تباہی کی تمام داستان سنا رہے تھے۔آج بھی ج اکتوبر کا مہینہ سردی کا آغاز ہلکی سی ٹھنڈ لے کر آتا ہے تو وہ تاریک راتیں یاد آتی ہیں۔ جس دن لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے ،اس رات آسمان بھی کھل کر رویا ، جیسے ہر طرف سے تباہی و بربادی آ رہی ہو۔
8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کو 17 سال مکمل ہو گۓ ہیں۔ اس سانحے میں ہزارو لوگ لقمہ اجل بنے اور لاکھوں گھر زمین بوس ہو گۓ تھے سانحہ 8 اکتوبر میں تباہ ہونے والے شہر پہلے سے بہتر آباد ہو چکے ہیں لیکن ان شہروں کے مکین اپنے اُن پیاروں کو نہیں بھلا پاٸیں گے جو ان سے جدا ہو کر قبرستانوں میں جا بسے۔
ایک نہ بھولنے والا دن جب چند سیکینڈز نے کہیں گھروں کو اجاڑ دیا تھا کہیں بستیاں تباہ کر دیں تھیں ، قیامت سے پہلے قیامت کا منظر تھا وہ لرزہ خیز منظر ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔
8 اکتوبر 2005 کو آج بھی ہر سال یاد کیا جاتا ہے۔لوگ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں ، ان کی مغفرت کے لیے دعاٸیں کرتے ہیں ، قرانی خوانی کرواتے ہیں۔لوگ اپنے بچھڑے ہوٶں کو یاد کرتے ہیں ، ان کے زخم پھر تر و تازہ ہوتے ہیں۔ میں آج بھی ہو لمحے یاد کرتا ہوں تو خوف ذدہ ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوۓ ہیں۔
اللّٰه سے دعا ہے کہ اللّٰہ پاک اس سانحہ میں عارضی دنیا کو چھوڑ کر ابدی دنیا کی طرف کوچ کر جانے والے تمام شہدا کو جنت الفردوس میں اعلٰی و عرفا مقام عطا فرماۓ اور ہمیں ایسی ناگہانی آفتوں سے محفوظ فرماۓ۔ آمین
آج پھر جاگ اٹھے ہیں بچھڑے ہوٶں کےغم
آج پھر اکتوبر جو آیا ہے یاد اپنوں کےدلانے