تحریر! عباس کاشر
بلدیاتی انتخابات کی ریل پہل جاری و ساری ہے یہ عمل انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پرُ آزمائش بھی ہے ابھی اس عمل کا ایک مرحلہ (کاغذات نامزدگی) طے ہوا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بہتر تھا کہ یہ نہ ہی ہوتے یا یہ کہ انتقال اقتدار نہیں بلکہ یہ انتشار اقتدار ہو گا اس طرح کے ملے جلے رجحانات آگے بھی دیکھنے کو ملینگے، ہمیـں اس سارے عمل میں دلبر داشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جس نظام کے لئے ہم ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیــں اصل وجہ اُسی نظام میں تعطل ہے اور یہ کئی دہائیوں پر محیط ہے جو کس جادوئی چھڑی سے ایک دم درست نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے ان انتخابات کا باقاعدہ اور وقت پر ہونا ضروری ہے اور یہ بھی مصمم حقیقت ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں سیاسی وابستگیاں کم اور رشتہ داری، دوستی، اور ذاتی تعلقات عامہ زیادہ بھینٹ چڑھیں گے ، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی عمل کو سیاسی نہیں بلکہ ذاتیات، آناؤن، ہر طرح کے عصبیتی تعصبات، تفرقات ،جھوٹی شان وشوکت کے پیرائے میں ماپنے کی لاحاصل کوشش کی جا رہی ہے اور یقیناً اس کا نتیجہ بھی اسی صورت میں موجود رہے گا لیکن یہ عمل کوئی مدتوں پر محیط نہیں ہو گا جلد ہی لوگوں پر حقیقت آشکار ہو جائے گی اور یہ ناراضگییاں ذاتیات سے آگے بڑھ کر سیاسی اور نظریاتی پوزیشن پر کھڑی ہوں گی، بلدیاتی نظام پارلیمانی سیاسی نظام کی نرسری ہے اور موجودہ حکومت کا یہ بڑا احسن اقدام ہے کہ اس نے یہ خوبصورت منج سمجھایا ہے، شنید ہے کہ اس بار ان انتخابات کو لے کر بہت ناراضگییاں، خلفشاریاں ہوں گی لیکن ہمارے معاشرے میں شعوری ارتقائی عمل کو ان خدشات کے پیش نظر روکا بھی نہیں جا سکتا میرا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے عمل میں جتنے بھی اہل امیدوار ہیــں انہیں کسی بھی قسم کی قدغن نہ لگائیں اس پورے عمل کو بھرپور انداز سے ایکسرسائز ہونے دیا جائے تاکہ کسی امیدوار کی حسرت کے آرمان مانند نہ پڑھ جاہیں یا کسی بھی قسم کی بندش کے باعث ان کے افکارِ کو زنگ آلود نہ کیا جائے یقیناً اس سارے عمل میں جو بھی کامیاب ہوکہ آگے آے گا وہ آپ میں سے ہی ہو گا اور آج جس امیدوار کے لئے آپ زمین و آسمان کے کلابے ملا رہے ہیں کل وہ آپ کے لئے اور علاقہ کے کچھ تو کر ہی لے گا یاد رہے کہ تعصب، تنگ نظری سے باہر نکل کر علاقہ تعمیر و ترقی کے لئے سوچنا ہوگا کیونکہ تعمیر و ترقی کسی برادری، قبیلے، کنبہ، یا ایریا کی مرہونِ منت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے عوامل سے گزرے اکابرین کو کوئی ثواب ہو سکتا ہے اس سے یکسر سبھی افراد مستفید ہوتے ہیں اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر ضرور رکھیے گا کہ ایسے اکابرین جو کسی بھی علاقے یا عوام کے لئے پہچان بنے تھے انھوں نے یقیناً اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہو گی آج بھی ایسے کردار بننے کی ضرورت ہے!