لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کردیا

لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہیٰ کی جانب سے بیان حلفی جمع کرانے اور اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کردیا۔
وزیر اعلی ڈی ںوٹیفکیشن کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کو تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر وزارت اعلی پر بحال کیا گیا تو اسمبلی تحلیل نہیں کروں گا۔
عدالت نے گورنر پنجاب سے بھی اپنا آرڈر واپس لینے کی انڈر ٹیکنگ مانگتے ہوئے سماعت گیارہ جنوری 2022ء تک ملتوی کردی۔ عدالتی حکم نامے کے بعد پرویز الہیٰ اور پنجاب کابینہ 11 جنوری تک بحال رہیں گے۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے رکن جسٹس عابد عزیز شیخ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کے دوران استفسار کیا تھا کہ برطرفی کا نوٹیفکیشن معطل کریں تو کیا پرویز الٰہی اسمبلی فوری تحلیل کرینگے؟۔
گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کے جانے کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سماعت کی، جس میں دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ہٹانے کےلیے 2 طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ عدم اعتماد کی تحریک ہے، جو آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت جمع کرائی جاتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 7 کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کو اعتماد کو ووٹ لینے کہہ سکتا ہے۔ اعتماد کے ووٹ کےلیے گورنر اجلاس سمن کرتا ہے۔ گورنر کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کےلیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہییں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کردیں تو کیا آپ فوری اسمبلی تحلیل کریں دیں گے؟۔ کیا آپ تحریری طور پر یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے؟ فل بینچ کے رکن جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے حکم پر عمل درآمد کیے بغیر آپ اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔
لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری پرویز الہی کے وکلا کو موکل سے ہدایت لینے کےلیے ایک گھنٹے کا وقت دیا اور اسمبلی نہ توڑنے سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
ایک گھنٹے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پرویز الہیٰ اپنے صاحبزادے مونس الہیٰ اور وکلا کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوئے جہاں انہوں نے جج کو تحریری بیان جمع کرایا جس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ ’اگر عدالت مجھے عہدے پر بحال کرتی ہے تو میں اسمبلی تحلیل نہیں کروں گا‘۔
قبل ازیں چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے گئے لارجر بینچ کے فاضل رکن جسٹس فاروق حیدر نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی تھی، جس سے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کرنے والا لاہور ہائی کورٹ کا لارجر بینچ تحلیل ہوگیا تھا۔ بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے نیا فل بینچ تشکیل دیدیا، جس میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا۔
واضح رہے کہ پرویز الہی نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ چودھری پرویز الہی کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل درخواست دائرکی گئی تھی، جس میں گورنر اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، حکومت پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں، خط اسپیکر کو لکھا گیا، وزیراعلی کو نہیں ۔
ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے۔ گورنر کو اختیار ہی نہیں کہ وہ غیر آینی طور پر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر سکیں۔
پرویز الٰہی کی جانب سے آئین کےآرٹیکل 199کےتحت دائر کی گئی پٹیشن میں کہا گیا کہ گورنر پنجاب نے آئین کےآرٹیکل 130سب سیکشن 7کی غلط تشریح کی۔ گورنر پنجاب نے اختیارات کاغلط استعمال کرتے ہوئے وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی کیا۔
پٹیشن کے مطابق گورنر،وزیراعلیٰ کو تعینات کرنے کی اتھارٹی نہیں، اسی لیے وزیراعلی کو ہٹانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ گورنر نے اسپیکر کےساتھ تنازع میں وزیراعلیٰ کو غیرقانونی طور پرہٹایا۔ جب تک اسپیکر اعتماد کےووٹ کے لیے اجلاس نہیں بلاتا تو بطور وزیر اعلیٰ کیسے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت گورنر پنجاب کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے۔
عدالت عالیہ میں درخواست پرویز الٰہی کے وکیل عامر سعید راں کی وساطت سے دائر کردی گئی تھی، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کے لیے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس کے دیگر دیگر ارکان میں جسٹس چودھری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل تھے، تاہم جسٹس فاروق حیدر کی جانب سے معذرت کے بعد ان کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو بینچ میں شامل کیا گیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment