رضوانہ تشدد کیس : جج کی بیوی سومیہ عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد

اسلام آباد: سیشن کورٹ نے گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کی ملزمہ سول جج کی بیوی سومیہ عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں گھریلو ملازمہ رضوانہ پر جج کی اہلیہ کے تشدد کیس کی سماعت ہوئی۔ جج کی گرفتار اہلیہ سومیا عاصم کو ڈیوٹی جج شائستہ خان کنڈی کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
پولیس نے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ خاتون کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق قانون کیا ہے؟ اس پر پولیس نے جواب دیا کہ قتل میں ملوث ہو یا پھر ڈکیتی میں ملوث ہو تو ریمانڈ ہوتا ہے، ہمیں تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
خاتون جج نے پوچھا کہ اس کیس میں ملزمہ پر کون سی دفعات لگیں گی؟ اس پر ملزمہ سومیہ کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں دفعہ 324 لگتی ہے۔ جج نے پوچھا کہ اس وقت بچی کی حالت کیسی ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ بچی کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔
عدالت نے کہا کہ صرف دو نوعیت کے کیسز میں جسمانی ریمانڈ ہوتا ہے، 324 تو قتل کرنے کی کوشش ہے، پراسکیوشن عدالت کی معاونت کردے کہ اس صورت میں جسمانی ریمانڈ مل سکتا ہے یا نہیں؟
مدعی کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔ پراسیکیوشن نے کہا کہ ویڈیوز کا جائزہ لینا ہے اور جو تںخواہ دی اس کی رسیدیں پولیس نے برآمد کرنی ہیں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ آپ رسیدیں تفتیش کے مرحلے پر ہی دیں گے؟ پولیس نے کہا کہ ویڈیو برآمد کرنی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ ویڈیو تو ملزمہ کے بغیر ہی برآمد کرسکتے ہیں محض میڈیا ہائپ پر تو میں ریمانڈ نہیں دے سکتی۔
ملزمہ نے کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کررہی ہوں، مجھے جے آئی ٹی میں رات ساڑھے گیارہ بجے تک بٹھایا گیا، میں تین بچوں کی ماں ہوں، رات کو بارہ بجے تک ان کے پاس رہی، میں دو بار شامل تفتیش ہوئی، مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ کہہ کر ملزمہ سومیا عاصم کمرۂ عدالت میں رو پڑیں۔
عدالت نے کہا کہ کیا پولیس کا ایسا رویہ تھا؟ اس پر پولیس نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، عدالت نے ملزمہ سے پوچھا کہ کیا آپ ویمن تھانے میں تھیں؟ اس پر ملزمہ سومیہ عاصم نے کہا کہ مجھے کل ایک گھر میں لے کر گئے وہاں سے چیزیں اکٹھی کی ہیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ دیکھا جائے تو تفتیش مکمل ہوچکی ہے، زیادہ تر شواہد اکٹھے ہوگئے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ اس بیان کے بعد اب تو ریمانڈ کی ضرورت نہیں رہی۔
ملزمہ سومیا عاصم نے کہا کہ میں نے ہمیشہ تفتیش میں تعاون کیا، مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جتنا میرا میڈیا ٹرائل ہوا ہے مجھے خودکشی کر لینی چاہیے، بچی میرے ساتھ کام نہیں کرتی تھی، میری اس کی ماں کے ساتھ نیکی میرے گلے پڑ گئی، بچی مٹی کھاتی تھی۔
عدالت نے ملزمہ سومیا عاصم کی استدعا پر اسے فیملی سے ملنے کی اجازت دی۔ بعدازاں عدالت نے ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنادیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے فیصلہ سناتے ہوئے پراسیکیوشن کی ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
دریں اثنا جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ سامنے آگیا جس میں جج نے کہا ہے کہ پولیس نے ملزمہ کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، پولیس دوران تفتیش ملزمہ سے متعلقہ ریکوریز کر چکی ہے، ملزمہ کے وکیل نے کہا دوران تفتیش پہلے بھی تعاون کیا آگے بھی تعاون کے لیے تیار ہیں، ملزمہ کے وکیل نے مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی مخالفت کی۔
عدالت نے کہا کہ پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی لیکن ساتھ تسلیم بھی کیا کہ انہوں نے ریکوریز کرلی ہیں، مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کے لیے پولیس عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی، ملزمہ ایک خاتون ہے اور قانونی طور پر کیس قتل ڈکیتی کا نہیں جہاں ریمانڈ دیا جائے اس لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔
بعدازاں عدالت نے 22 اگست کو ملزمہ سومیا عاصم کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

Comments (0)
Add Comment