اسلام آباد: چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں۔ یہ عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔
صحافیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے وہ باتیں قابل احترام تین صحافی بتا رہے ہیں، جو خود مجھے بھی نہیں پتا۔ اگر کوئی ایسی چیز ہے بھی تو سامنے آکر مجھے بتا دیں۔ جو کہنا ہے کہتے رہیں، 3سال سے تنقید ہی اس عدالت کی طاقت ہے لیکن کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔جو کچھ کسی نے کہنا ہو کہے، اس عدالت نے آزادی دی ہوئی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس چیز کا مجھے علم نہیں ہے، اگر ان کو علم ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے مجھے بھی بتا دیں۔یہ عدالت کسی چیز سے گھبرانے والی نہیں ہے ۔آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے۔ میں پھر کہتا ہوں یہ اس عدالت کا احتساب ہے ۔ اس عدالت نے نہ کسی کو اپروچ ہونے کی اجازت دی ہے نہ کسی سے رابطہ رکھا ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہر کوئی کمپین چلاتا ہے لیکن اس کورٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ سچ خود بخود کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ صحافی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جو وہ کر رہے ہیں کیا وہ درست کر رہے ہے؟ ۔ کورٹ ہمیشہ فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے ۔بیانیے بنتے ہیں، جتنا کرنا ہے کر لیں، عدالت نے وہی کرنا ہے جو کرتی آرہی ہے، لیکن اپنے آپ سے پوچھیں ہم اس ریاست کو کس طرف لے کر جارہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ باقیوں کو چھوڑیں، کیا صحافیوں کو یہ کام کرنا چاہیے ؟ 2018 سے اب تک جو کچھ ہوتا آ رہا ہے وہ دیکھ لیں ۔ یہ کورٹ آپ کو کبھی نہیں روکے گی۔ جو کہنا ہے کہتے رہیں۔ یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں۔ فیک نیوز کا واحد حل یہ ہے کہ more speech ۔ آج تک ہم آئین کو پوری طرح بحال نہیں کر سکے۔