دہشتگردی کیس؛ عمران خان تھانے کے بجائے احاطہ عدالت میں شامل تفتیش ہونے پر تیار

 اسلام آباد: خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان نے ملزم عمران خان سے احاطہ عدالت میں تفتیش کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کو ہراسمنٹ کی کوشش قرار دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کو دھمکی دینے کے کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی، جہاں فاضل جج کے حکم پر عمران خان عدالت میں پیش ہو گئے، جہاں ان کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ فاضل جج راجا جواد عباس کے استفسار پر وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش جوائن کر لی تھی۔

پولیس نے ہائی کورٹ کو غلط بتایا، بابر اعوان

بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ اخراج کی درخواست پر نوٹس ہو چکا ہے۔ پولیس نے ہائی کورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہ ہوئے۔ عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر فیئر انویسٹی گیشن کر کے تفتیش میں پیش رفت سے آگاہ کرے۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے ۔ وکیل نے بیان جمع کروا دیا ہے۔انسداد دہشت گردی عدالت کے فاضل جج کی جانب سے سرزنش پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹس بھجوائے ہیں۔ وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا، جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔ جج راجا جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ آپ تک بیان پہنچا، جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا۔ اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔

کیا ملزم کا آنا لازمی ہے؟ کون سا ہتھیار برآمد کرنا ہے، عدالت

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر عدالت کی رہنمائی کریں۔ ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟ بیان کو ریکارڈ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا ملزم کا آنا لازمی ہے؟۔کون سا ہتھیار برآمد کرنا ہے۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم آئے اور تفتیش کو جوائن کرے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اب یہ آئے اور جائے کدھر لکھا ہے؟۔ عدالت نے بابر اعوان کو آج دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی وجہ سے دیگر کیسز زیر التوا رکھنے پڑتے ہیں۔ جج نے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ ملزم کو لے آئیں تاکہ دلائل مکمل ہو سکیں۔

عدالت نے سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کردیا۔ اس دوران پی ٹی آئی رہنما اسد عمر عدالت پہنچے۔ علاوہ ازیں پارٹی کارکنان بھی انسداد دہشت گردی عدالت پہنچنا شروع ہو گئے، جہاں انہوں نے نعرے بازی بھی کی۔ اس موقع پر رہنما پی ٹی آئی فیصل جاوید بھی عدالت پہنچ گئے۔

گیارہ بجے کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہو گئے۔ اس موقع پر اسد عمر،اعظم سواتی،فیصل جاوید سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود   تھے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

میں بڑا خطرناک ہوں، عمران خان

عمران خان کی آمد پر صحافیوں نے سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں بڑا خطرناک ہوں۔ صحافی نے سوال کیا کہ پہلے الطاف حسین پھر نواز شریف اب آپ کو مائنس کیا جارہا ہے، جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ایک چور نواز شریف اور دہشت گرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کریں۔

چیئرمین پی ٹی  آئی عمران خان کے وکیل  نے عدالت میں دلائل دینا شروع کردیے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک سے زائد بار جواب جمع کرا چکے ہیں۔ کیا وہ جواب پرائیویٹ ہے جو شامل نہیں کیا گیا؟۔ انہوں نے کہا کہ بحث کے لیے بھی تیار ہوں، نئے پراسیکیوٹر نے وقت لینا ہے تو وہ بھی لے لیں۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے 3 نوٹسز جاری کیے لیکن عمران خان نے تفتیش جوائن نہیں کی، جج نے ریمارکس دیے کہ 161 ایک دفعہ پڑھ لیں۔ سیکشن کا ذکر کیا ہے وہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس موقع پر بابر اعوان کی جانب سے  سیکشن 161 پڑھ کر سنایا گیا۔

بابر اعوان نے کہا کہ سیکشن میں کہاں لکھا ہے کہ تھانے میں بلایا جائے؟۔ پچھلی سماعت میں بھی عدالت میں تفتیشی افسر نے کہا کہ عمران خان پیش نہیں ہوئے۔ لیکن کہیں ایسا نہیں لکھا ،آپ کی جانب سے سوالات قانون کے مطابق کیے جا رہے تھے ۔ بیان لکھ کر دیا گیا اسکو ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا۔ پولیس نے ضمنی میں بیان کو کیوں نہیں لکھا؟۔

عمران خان تھانے جائیں اور کوئی مار دے تو کیا ہوگا؟ بابر اعوان

عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ خود بتاتے ہیں کہ کاالعدم تنظیمیں پیچھے لگی ہیں۔ اگر عمران خان تھانے جائیں اور کوئی مار  دے؟ ۔ ان کا کیا پتا کہ اپنے بھی دو بندے مروا دیں۔ صبح آفر کی تھی کہ یہاں ہی بیٹھ جاتے ہیں، یہ پوچھ لیں کیا سوال پوچھنا ہے۔ ناقص تفتیش پر پولیس افسر کو عدالت شوکاز نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ اس کا ٹرائل نہیں ہوگا، سمری پروسیڈنگ ہو گی جس کی سزا 2 سال تک قید ہے۔

بابر اعوان نے دلائل میں مزید کہا کہ ملزم پولیس کے سامنے اعتراف جرم بھی کر لے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پھر یہ شامل تفتیش کرنے کے لیے پیش ہونے کی شرط کیوں رکھ رہے ہیں؟۔ جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر کو 2 مرتبہ بیان لکھ کر دیا۔ جب سے یہ پولیس آئی ہے، وکلا کو تھانوں میں جانا پڑ رہا ہے۔ وکلا تھانے گئے تو کہا کہ چیف کمشنر کے آڈیٹوریم آئیں۔ میں نے عمران خان سے پوچھے بغیر آفر کی کہ انویسٹی گیشن کرنی ہے تو عدالتی احاطے میں کر لیں۔ یہ طے کر لیں کہ تفتیش کرنی ہے یا ہراسمنٹ چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے الفاظ سے ڈر گئے۔

آدھی ایف آئی آر تو ختم ہوگئی، وکیلِ ملزم کے دلائل

وکیل عمران خان نے  عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج کو کہا گیا کہ ہم نے تمہارے خلاف ایکشن لینا ہے، ظاہر ہے وہ لیگل ایکشن تھا۔ جج نے ریمارکس دیے کہ اس پر ہم بات نہیں کریں گے، کیونکہ یہ اوپر ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ بس اس کو ریکارڈ پر لانا تھا کہ آدھی ایف آئی آر تو یہاں ختم ہو گئی۔

بابر اعوان نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی  تمہیں تو ہم نے نہیں چھوڑنا، تمہارے خلاف تو ہم کیا کریں گے۔ یہاں سے دہشت گردی نکال کر دکھائیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردی رضوان عباسی صاحب نے نکالنی ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ کو اتنے دن بعد کیوں انگیج کیاگیا؟

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہم ابھی ملزم کے تفتیش جوائن کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ جے آئی ٹی یا تفتیشی افسر نے ہی طے کرنا ہے کہ تفتیش کا طریقہ کون سا ہو گا۔ بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کی تقریر پر پابندی لگائی گئی؟

جہاں تفتیش جوائن کرنی ہےکریں، عدالت آرڈر نہیں کرے گی، جج کے ریمارکس

جج نے ریمارکس دیے کہ جہاں تفتیش جوائن کرنی ہے آپ کریں ۔ ہم کوئی آرڈر یا ڈائریکشن جاری نہیں کر رہے ۔ بار روم میں بیان قلمبند کروائیں یا جہاں بھی کریں ۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر دن 2 بجے تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ساری مہم مائنس کی ہے، عمران خان جلدی پلس ہو جائیگا، بابر اعوان

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا الگ کیس ہے، جس میں ایک ایسے شخص کو دہشت گرد بنایا ہے جو امن کی بات کرتا ہے۔ بتایا گیا عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ عدالت کو  کہا یہ تین جملوں کا کیس تھا۔ معاملہ پہلے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چل رہا ہے۔ یہ دو جملے تھے آئی جی ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اور ڈی آئی جی ہم تمہارے اوپر کیس کریں گے۔ یہ ساری مائنس عمران کی مہم ہے۔ عمران خان جلدی پلس ہوجائے گا۔

قبل ازیں وکیل بابر اعوان نے عمران خان کی گاڑی احاطہ جوڈیشل کمپلیکس میں داخل کرنے کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے اجازت دے دی۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے کہتے ہم اجازت دے دیتے، جس پر بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ روز مختلف تنظیموں کی جانب سے تھریٹ ملتا ہے۔ سب سے بڑا تھریٹ تھانوں کا ہے۔

صحافیوں کو جانے سے روکا گیا

یاد رہے کہ عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے آج فریقین سے حتمی دلائل طلب کیے تھے۔سماعت سے قبل اسلام آباد پولیس نے میڈیا کے نمائندوں کو عدالت جانے سے روک دیا۔اہل کاروں نے شناخت کے باوجود صحافیوں سے کہا کہ وہ انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ سب انسپکٹر نواز رانجھا نے کہا کہ خواہ آئی جی کا حکم ہو، ہم نہیں جانے دے سکتے۔ آئی جی کو بتا دیں کہ میں نے جانے نہیں دیا۔

واضح رہے کہ وزیر داخلہ نے  2 روز قبل ہی میڈیا کے ساتھ پولیس کے غلط رویے پر نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو صحافیوں سے مل کر آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

Comments (0)
Add Comment