خون کا نیا ٹیسٹ جِلد کے کینسر میں مبتلا افراد کے لیے نئی امید

مانچسٹر: سائنس دانوں نے خون کا ایک نیا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو جِلد کے سرطان میں مبتلا افراد کے بہتر علاج کے لیے معالجین کو مدد فراہم کرسکتا ہے۔لِکوئیڈ بائیوپسی نامی یہ ٹیسٹ فی الحال آزمائشی مراحل میں ہے لیکن ماہرین پُر امید ہیں کہ مستقبل میں اس کو مستقل بنیادوں پر بیماری میں مبتلا افراد کا علاج کب شروع اور کب ختم کرنا ہے جیسے مشکل فیصلوں میں معالجین کی مدد کے طورپر استعمال کیا جاسکے گا۔کینسر کا علاج کیسا ہورہا ہے، یہ جاننے کے لیے سب سے عام طریقہ سی ٹی اسکین ہے جو جسم کے اندر کی تفصیلی تصاویر فراہم کرتا ہے اور میلینوما (کینسر کی ایک قسم) کے مریض ہر چند مہینوں میں یہ اسکین کراتے ہیں۔یہ اسکین ڈاکٹروں کو رسولی کے کم ہونے یا بڑھ جانے یا کینسر کے جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جانے کی نشان دہی کرنے میں مدد دیتی ہے۔اس پورے عمل میں کافی وقت اور عملہ درکار ہوتا ہے اور مریض کو اسپتال میں نصف دن گزارنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ نیا ٹیسٹ مریضوں اور معالجین کو انتہائی سادہ آپشن پیش کر سکتا ہے۔یہ ٹیسٹ خون میں دوڑتے کینسر کے ڈی این اے کی تلاش کرتا ہے۔ ڈی این اے کی کم مقدار یہ بتاتی ہے کہ علاج مؤثر ہے اور کینسر ختم ہو رہا ہے۔ لیکن بلند مقدار کا مطلب علاج کامؤثر نہ ہونا سمجھا جاتا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق ٹیسٹ کے نتائج دنوں میں فراہم کیے جاسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ رُونما ہونے والی تبدیلیوں کو اصل وقت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اور ایک خون کا ٹیسٹ ہونے کے کی وجہ سے یہ کسی بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ تحقیق مانچسٹر میں قائم کرسٹی این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ میں کی گئی جس کی رہنمائی پروفیسر پال لوریگن نے کی۔