سعودی کفیل کی انسان نوازی، ملازمہ کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے انڈونیشیا پہنچ گیا

سعودی عرب میں لاکھوں کی تعداد میں انڈونیشیائی خواتین گھریلو ملازماؤں کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ دراصل فلپائنی اور انڈونیشین ملازماؤں کو ان کی فرض شناسی، محنت اوراحساسِ ذمہ داری کی بناء پر سعودی مملکت میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اکثر گھریلو ملازماؤں کو گھر کے فرد کا سا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔

اور ان سے جُدائی کا وقت گھر والوں پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ سعودی کفیل احمد الغامدی اور اس کے گھر والوں کو اپنی ایسی ہی ایک ملازمہ کئی سالوں کی خدمت کے باعث بہت عزیز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس ملازمہ نے اُن سے فرمائش کی کہ وہ اس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے انڈونیشیا تشریف لائیں تو انہوں نے اس کی فرمائش کا احترام کرنا ضروری خیال کیا اور انڈونیشیا کا سفر کر کے ملازمہ کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کر کے ملازمہ کی خوشی کو دوہرا تہرا کر دیا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے سعودی شہری احمد الغامدی نے بتایا کہ ” یہ ملازمہ عموما اْس وقت اپنی خدمات پیش کرتی ہے جب میں اور میرے گھر والے انڈونیشیا کا سفر کرتے ہیں۔ یہ کھانا بنانے کے علاوہ گھر کے دیگر انتظامی امور بھی انجام دیتی ہے۔ یہ بہت اچھے دل اور روح کی مالک ہے۔ جب اس نے مجھے اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے دعوت دی تو میں نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے بوقور شہر جانا قبول کر لیا۔

یہ میرا اس خوب صورت ملک کا 12 دورہ ہے”۔شادی کی تقریب کے حوالے سے الغامدی نے بتایا کہ انڈونیشیا میں شادی کی رسومات صبح سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے بہت سادہ سا طریقہ کار ہے۔ شادی کی تقریب کی جگہ پر 50 سے زیادہ افراد کی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ سلسلہ شام 8 بجے تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران آنے والے مہمان دولہا دلہن اور دونوں کے خاندانوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں … سادگی اور مسکراہٹ یہ اس شادی کا عنوان ہے”۔

شادی میں شرکت کے بعد احمد الغامدی کی ایک وڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ شادی ہال کے اندر بچوں میں مالی رقوم تقسیم کرتا نظر آ رہا ہے۔ اس وڈیو کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سعودی صارفین نے تنقید بھی کی۔ اس سلسلے میں الغامدی نے کہا کہ "یہ وڈیو کلپ بنانے والا شخص میرا ڈرائیور ہے۔ میری جانب سے ننھے بچوں میں نقدی تقسیم کرنے کا مقصد اس موقع پر ان بچوں کے دلوں میں مسرت ڈالنا تھا”۔