لاہور: پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ قیادت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی ہے، جمعہ کو پنجاب اور ہفتے کو خیبر پختون خوا کا پارلیمانی اجلاس ہوگا جس کے بعد دونوں اسمبلیوں کو توڑ دیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے متعلق پارٹی کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں استعفے اور عام انتخابات کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ اجلاس میں اعظم سواتی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی توثیق کردی ہے، سندھ اور بلوچستان سے ہمارے ممبر اپنے استعفے جمع کرائیں گے، اسپیکر قومی اسمبلی کو ممبران کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائے گا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ جمعہ کو پنجاب کی پارلیمانی پارٹی اور ہفتے کو کے پی کے کا پارلیمانی اجلاس ہوگا جس کے بعد دونوں اسمبلیوں کو توڑا جائے گا، عمران خان سے کے پی کے کے وزیر اعلیٰ کی ملاقات ہو گئی، کل وزیر اعلیٰ پنجاب ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ استعفوں سے ملک بھر میں 567 نشستیں خالی ہوجائیں گی، آئینی طور پر 90 روز میں پنجاب اور کے پی میں الیکشن کرانے ہوں گے، اپوزیشن کو نگران حکومت کے لیے اپنے نام لانے کی دعوت دی جائے گی، اگر ہم استعفی دیں گے تو الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن کروانے کا پابند ہوگا، الیکشن کمشن ن لیگ کا ترجمان نہ بنے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے الیکشن کچھ ماہ بعد بھی ہوں، فوری الیکشن کا مطالبہ ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث ہے، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پارلیمانی پارٹی اجلاس جمعہ کو طلب کیا ہے، ہم اب بھی چاہتے ہیں ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں، حکومت عام انتخابات کااعلان کرے اور قومی اسمبلی بھی تحلیل کرے ہمیں یقین ہےعوام پی ٹی آئی کو پہلے سے بھی زیادہ مینڈیٹ دے گی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ اعظم سواتی کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا جائے گا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا یہ ایک سلسلہ ہے جس میں 11 سال کے بچوں کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا، ہمارے انسانی حقوق کے ادار ے سوتے رہے اور کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
اجلاس کی اندرونی کہانی منظرعام پر آگئی
لاہور زمان پارک میں عمران خان کے زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں بابر اعوان اور بیرسٹر علی ظفر نے اسمبلیاں تحلیل یا مستعفی ہونے کے معاملات پر بریفنگ دی۔
قانونی ماہرین نے رائے دی کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو نگران سیٹ اپ تک موجودہ وزیراعلی ہی رہیں گے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اتفاق نہ ہوا تو الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا، نگران سیٹ اَپ کا اختیار الیکشن کمیشن کو ملنے سے فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا۔
اجلاس میں مستعفی ہونے کے بجائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آپشن پر مشاورت کی گئی۔ پارٹی رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے امپورٹڈ حکومت کو ہر صورت عام انتخابات کروانا پڑیں گے۔
اجلاس میں اسمبلیاں تحلیل کرنے یا مستعفی ہونے کا اختیار پارٹی چئیرمین عمران خان کو دے دیا گیا۔ وزیراعلی کے پی کے نے کہا کہ پارٹی چیئرمین جو فیصلہ کریں گے اس پر من و عن عمل ہوگا۔
عمران خان نے موجودہ صورتحال پر پارلیمانی پارٹی کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے سے قبل وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الہی کو بھی اعتماد میں لینے پر اتفاق کیا گیا۔
اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ پنجاب میں اسمبلی تحلیل کرنے، اسمبلی سے مستعفی ہونے یا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر کیا کیا آئینی آپشنز ہیں۔ بتایا گیا کہ وزیر اعلی کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس جاری کرسکتے ہیں، وزیر اعلی کی ایڈوائس پر گورنر 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہوں گے۔
بتایا گیا کہ وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی صورت میں وزیر اعلی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے، اپوزیشن کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا سکتی ہے، اپوزیشن کو اسمبلی کی مجموعی تعداد کے 20 فیصد ارکان کے دستخطوں کے ساتھ تحریک جمع کروانا ہوگی۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن کو تحریک کے حق میں 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے، عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے کے لیے اجلاس کا جاری ہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں ہے، اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر پنجاب وزیر اعلی کو کہہ سکتے ہیں۔
اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ گورنر کو خصوصی اجلاس بلانا ہوگا جس میں وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جاسکتا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی کے طلب کردہ اجلاس کے دوران گورنر اعتماد کے ووٹ کے لیے نہیں کہہ سکتے، جاری اجلاس کے ہوتے ہوئے گورنر اپنا خصوصی اجلاس نہیں بلاسکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ٖفیصلہ کیا گیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے یا مستعفی ہونے کے حوالے سے تمام قانونی آپشنز اور سیاسی ڈویلپمنٹ پر گہری نظر رکھی جائے گی۔