امریکی اراکین کا نگر یس کا مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں، حراستی مراکز پر اظہار تشویش

واشنگٹن(آن لائن) ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر حراستی مراکز قائم کرنے کے منصوبوں نے امریکی ہاؤس آف ریپرزینٹیٹو (کانگریس) کی واحد بھارتی قانون ساز پرامیلا جیاپال کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بھارتی حکومت کی جانب سے 2 ہزار کشمیریوں کو حراست میں لیے جانے کی خبروں سے سخت پریشان ہوں جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت کا مسلمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر حراستی مراکز بنانے کا منصوبہ ہے‘۔رپورٹ کے مطابق اسی قسم کی ایک ٹوئٹ میں ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شف نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا انہوں نے لکھا تھا کہ ’کشمیر میں صورتحال خاصی سنگین ہے جہاں ہزاروں شہری دنیا سے کٹ بغیر کسی الزام کے قید ہیں‘۔جیا پال نے اپنے پیغام میں نئی دہلی کو باور کروایا کہ ’اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے خوف اور حد سے زیادہ حب الوطنی بھارت میں بھی اسی طرح نقصان دہ ہے جیسے امریکا میں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جمہوریت میں شفافیت، ضرور کارروائی اور آزادی اظہار رائے درکار ہوتی ہے، چاہے صورتحال کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو یہ چیزیں انتہائی اہم ہیں۔اس ضمن میں امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ک جموں کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلے پر بات کرنی چاہیے قبل اس کے کہ پاکستان کے ساتھ اس کی کشیدگی میں اضافہ ہو‘۔دوسری جانب امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ’بھارت کو کشمیر کو حراستی مرکز میں تبدیل نہیں کرنے دیں‘۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ شدید انسانی بحران کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار پر دھیان دیں۔دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حقائق جانچنے والی رپورٹ میں کشمیر میں صورتحال معمول پر ہونے کے بھارتی حکومت کے دعوے کے جواب میں لکھا کہ ’حتیٰ کہ چھرے اور گولیاں بھی کشمیری عوام کو زیر کرنے میں ناکام رہے جو پوری وادی میں بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔بھارتی حکومت کیدعوے کے حوالے سے امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ ویڈیو اور عینی شاہدین کے بیانات بھی شامل کیے جو ایک الگ ہی کہانی بیان کررہے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کی جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ وادی کے تمام علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں جبکہ کچھ ویڈیوز میں بھارتی فورسز کو کشمیری مظاہرین پر گولیاں اور پیلٹ گن سے فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر میں مکمل طور پر مواصلاتی بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے تاہم کچھ میڈیا ادارے بھارتی یومِ آزادی سے شروع ہونے والے احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے میں کامیاب ہوگئے۔ان ویڈیوز نے بھارتی حکام کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ انہوں نے مظاہرین پر پیلٹ گنز اور گولیان برسائیں‘۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز سال 2010 سے کشمیریوں کے خلاف شاٹ گنز اور دھاتی چھروں کو استعمال کررہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ شاٹ گنز سینکڑوں دھاتی چھرے فائر کرتی ہیں جو کافی دور تک پھیلتے ہیں جس کے نتیجے میں جولائی 2016 سے لے کر اب تک سینکڑوں کشمیری بینائی سے محروم جبکہ کم از کم 14 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، اس ہتھیار کا اثرات آئندہ آنے والے سالوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔